تحریر ڈاکٹر ائی ایچ نقوی
فلسطین اسرائیل جنگ پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا جنگ کی ہولناکیاں نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا تمام انصاف پسند اس بات پر حیران ہیں کہ اسرائیل نے جنگ کے نام پر کس طرح درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام انسانی حقوق کی پامالی کی نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کی بلکہ جنگی جرائم کا مرتکب بھی ہوا ہے اور مایوس کن بات یہ ہے کہ اس سارے مراحل میں یو این او سلامتی کونسل او ائی سی کوئی واضح کردار ادا نہیں کر سکی سسکتے بلکتے بھوکے پیاسے فلسطینی اسرائیل کی بربریت کا شکار ہوتے رہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حماس اور اس کے حمایتی گروہ نے اس جنگ میں اسرائیل کو ایک نیا سبق سکھایا ہے اور اس کے غرور کا سر نیچا کر دیا ہے اور عالمی سطح پر پایا جانے والا اسرائیل کا ایک روپ اور دبدبہ ختم ہو چکا ہے یہاں پر اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی شہری آبادیوں پر بمباری کیون کی فلسطین کے ہسپتالوں پہ بمباری کیوں کی پناہ گزیر کیمپوں پہ بمباری کیوں کی چرچ کے اوپر بمباری کیوں کی ایک بڑی تعداد میں ہیلتھ سے متعلقہ افراد کی ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے
کیا اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نسل کشی کی جا سکتی ہے اور کسی قوم کو صفہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے اپ کا جواب یقینا یہی ہوگا کہ ایسا نہیں ہو سکتا خبر اب یہ بھی ارہی ہے کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیل نے بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اس جنگ کے اندر جو واقعات ہوئے اس نے انسانیت کو ایک دفعہ حالا رکھ دیا ہے اور دنیا کا مستقبل غیر محفوظ ہو گیا ہے ساری دنیا میں انصاف پسند لوگوں نے مذہب کو بالا تاک رکھ کر فلسطین کے حق میں بھرپور مظاہرہےکیے اور اسرائیل کی ظالمانہ روش کی شدید الفاظ میں مذمت کی لیکن اس کے باوجود اسرائیل اپنے عزائم سے باز نہیں ایا میں سمجھتا ہوں کہ دراصل اسرائیل کا اس طرح سے بمباری کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل بکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد خاص طور پر انفارمیشن اکٹھی کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور یہ ناکامی نہ صرف موساد کی ہے بلکہ سی ائی اے کی بھی ہے اور اسرائیل کے حمایت ممالک کی بھی ہے کیونکہ اگر اسرائیل یہ کہتا ہے کہ ہم نے اس ہاسپٹل پر بمباری اس لیے کہ اس میں حماس کے مجاہدین کا کوئی ٹھکانہ تھا یا اس کی کسی سرنگ کا راستہ تھا اگر اس کو حقیقت بھی مان لیا جائے تو کیا اسرائیل کے پاس ایسی کوئی فوجی صلاحیت موجود نہ تھی کہ سرجیکل اٹیک کر کے اس ٹھکانے کو تباہ کر دیا جاتا کیا میں اس بات کو سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ اسرائیل الفاظ خوفزدہ ہو کر اس وسیع پیمانے پر رہائشی ابادیوں کو مفروضے کی بنیاد پر بمباری کا شکار کر رہی ہے اور ہزاروں بچے عورتیں اور مرد موت کی وادی میں سو چکے ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں تمام انصاف پسندوں کو چاہیے کہ اس جنگ کو فوری طور پر مکمل روکا جائے تاکہ ظلم و بربریت کی مزید داستان رقم نہ ہوں اور ہر ایک کو جینے کا حق دو کہ اصول پر عمل پیرا ہوا جا سکے کیونکہ اگر یہ جنگ مزید پھیلتی ہے تو پھر جیسا کہ واضح طور پر نظر ارہا ہے کہ امریکہ اور اس کے حمایتی ایک طرف ہیں جبکہ رشیا چائنہ اور دیگر ممالک شدید مذمت کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پرانے حساب کتاب برابر کرنے کے لیے جنگ میں کود پڑے ایران پہلے ہی واضح طور پر حماس کا ساتھ دینے اور فلسطینیوں کی اخلاقی سماجی مالی امداد کا اعلان کر چکا ہے یہ بھی ایک حقیقت اور سچ پر مبنی ہے کہ مسلم ممالک کو جس طرح ہم اس کا ساتھ دینا چاہیے تھا اس طرح وہ حماس کی طرف نہیں بڑے جس کے نتیجے کے طور پر مسلم ممالک کی عوام میں بے حد بے چینی پائی جا رہی ہے جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے لہذا کو دنیا کو محفوظ بنانے کی ضرورت پر تمام مذا تمام اقوام تمام افراد زور دیتے ہیں اسرائیل کو بھی اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ وہ اگر ایک دنیا کی بڑی طاقت ہے تو پھر یہ جنگ لڑنا اور بغیر اصولوں کے جنگ لڑنا کہاں کی بہادری ہے تمام اقوام عالم سے اپیل کرتا ہوں اور ان افراد کو جنہوں نے اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے اپنے اپنے ممالک میں مذہب کی دوری کو بلیک تک رکھ کر حق کے لیے اواز بلند کی اور اسرائیل کو ظلم کے خاتمے کا مشورہ دیا اور فلسطینیوں کی بقا اور سلامتی کے لیے احتجاج کیے اج اگر دنیا کو محفوظ بنانا ہے تو اس کے اوپر عمل درامد کرنا پڑے گا اور جنگ جرائم کے مرتکب اسرائیل کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو کل کو یہ صورتحال کسی اور ملک ساتھ بھی پیش ا سکتی ہے کوئی بھی طاقتور ملک کسی بھی غریب ملک کو اس کی سرزمین کو تہس نہس کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے جس سے یہ دنیا ایک بالکل غیر محفوظ دنیا بن کر رہ جائے گی اور بہت سارے سوالات اٹھائے جائیں گے اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو کہ عالمی دہشت گردی کا شکار ہے اور کشمیریوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں وہاں پر بھی اس قسم کے مناظر پیش ا سکتے ہیں لہذا یو ا گو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کیا جائے اور دیگر صورتحال میں اگر یو این ہو اس چیز کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر اس ادارے کو ختم کر دیا جائے اور ایک نیا ادادہ نئے قوائد و ضوابط کے مطابق تربیت دیا جائے جو واقعا دنیا کے بد امنی کو تحفظ میں امن میں بدل سکے اور دنیا سے جنگ و جدال کا خاتمہ ہو سکے تمام مذہب کے لوگ باہمی رواداری پیار محبت اور اخوت سے رہ سکیں