✍️ محمد طاھر شہزاد 4 جولائی 2020
کتے
کتے کا لفظ بھی کتنا عجیب ھے غصے کی حالت میں زبان پر آ جائے تو گالی بن جاتا ھے اور یہی لفظ مظلومیت میں بھی اپنی مثال آپ ھےاور اکثر بیویوں کے ناز نخرے اٹھاتے شوہروں کو اپنی ماؤں سے تعنے کی صورت میں سننے کو ملتا ھے کہ ھر وقت کتے کی طرح دم ھلاتا بیوی کے پیچھے پیچھے چلتا ھے ، کتے کی موت مرنا بھی مظلومیت کی اپنی مثال ھے ۔
میرا مضمون صرف کتوں پر ھی ھے براہ مہر بانی اسے اپنی ذات اپنے کردار اپنے شعور اپنی سیاسی وابستگی اپنے ضمیر اپنے کردار میں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیجئیے گا ۔ کیونکہ میرے مضمون کا تعلق خالصتا کتوں سے ھی ھے ۔براہ مہربانی میرے مضمون کو اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے ۔ اگر میرا مضمون پڑھتے وقت کسی کردار کی شبیہ آپ کے ذھن میں پنپنے لگے تو براہ مہر بانی اپنے دماغ کو اور آپنے ضمیر کو جھٹک کر سمجھا اور سلا دیجئیے گا کہ یہ صرف کتوں پر لکھا گیا مضمون ھے اس کی کوئی بھی مشابعت خالصتا” انسانوں سے اتفاقیہ سمجھ کر رد کر دی جائے ۔ اگر اپنے اندر کا کتا پن جاگنے لگے تو اسے بھی پیار سے سمجھا دیجئے گا کہ یہ مضمون صرف کتوں کے لیے ھے ، اوہ سوری کتوں پر لکھا گیا ھے ۔
اگر کہیں میری زبان یا الفاظ میں لڑکھڑاھٹ کی وجہ سے الفاظ ادھر ادھر ھو جائیں تو اپنے دل پر نہ لیجئیے گا اور نہ میری کتوں والی کیجئیے گا کیونکہ یہ صرف ایک مضمون ھے اور اس کا تعلق انسانیت سے نہیں صرف حیوانیت سے ھے ۔ مگر مجھے پتہ ھے کہ ضمیر تو ھر انسان کا ھے اگر ذندہ ھو تو تھوڑی چبھن تو ضرور ھوتی ھے چاہے تذلیل حیوان کی ھو یا انسان کی ۔
مجھے بھی کوئی پاگل ھی کہے گا کہ لکھنے بھی بیٹھا تو کتوں پر ؟
جبکہ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کا آج بہت بڑامسئلہ کتے ہی تو ہیں ، اب میرے الفاظ کا ھر گز غلط مطلب لینے کی ضرورت نہیں میں نے گلی محلوں کے کتوں کی بات کی ھے آپنے اندر کے کتے پن کی نہیں ، اب پھر میری بات کو غلط نہ سمجھئیے گا کیونکہ گلی محلوں کے کتوں کا ھرگز مطلب کچھ اور نہیں بلکہ خالصتا” کتوں کی ذاتیات سے ھی ھے ۔ پطرس بخآری نے بھی کتوں پر بہت پیارا مضمون لکھا مگر افسوس اتنا لمبہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی میں نے کسی کتے کو اپنی اصلاح کرتے نہیں دیکھا ،
یا شائید کتے شعور سے عاری ھوتے ہیں صرف شور کرنا ھی کتوں کا مشغلہ ھے اوہ سوری میں ایک بار پھر بھول گیا کہ کتوں کا شعور سے کیا تعلق شعور کا تعلق تو صرف انسانیت سے ھے ،
کتوں میں شعور ھوتا تو کیا وہ بھونک بھونک کر صرف شور مچاتے نظر آتے ؟
مجھے شعور سے یاد آیا کہ پچھلے دنو میں نے شعور اور شور پر بہت لمبا چوڑا مضمون لکھ ڈالا تھا جس میں کوشش کی تھی کہ سمجھا سکوں کہ شور اور شعور میں کیا فرق ھے مگر پتہ نہیں آج میں مضمون تو کتوں پر لکھ رھا ھوں مگر میرے لا شعور میں وہ مضمون کیوں گھومنے لگا ھے ۔
اس آرٹیکل میں میں نے بھی کیا فضول فضول دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کی تھی اور آج کتوں پر مضمون لکھنے بیٹھا تو مجھے اپنی ہی دلیلوں پر ہنسی آنے لگی ۔ اوہ سوری میں شائید اپنے ٹاپک سے ھٹ گیا تھا میں تو کتوں پر بات کر رھا تھا کتوں میں شعور نام کی کوئی چیز نہیں ھوتی وہ صرف بھونک بھونک کر شور کر کے معاشرے کو پریشان کرتے ہیں یہ محاورہ بھی کتوں کے بارے میں بہت عجیب ھے کہ جو بھونکتے ہیں کاٹتے نہیں ۔
ویسے پطرس بخآری صاحب اس محاورے سے اختلاف رکھتے تھے مگر میں 90٪ مانتا ھوں کہ اس محاورے میں صداقت ضرور نظر آتی ھے ۔ مگر آجکل کے کتوں میں تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ھے کہ بھونکتے بھی رھتے ہیں اور کاٹتے بھی ۔
سنا ھے کہ کتوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ھوتی مگر ان آوازوں اور ان ایکسپریشنز کو بخوبی پہچانتے ہیں جو ان کے مالک کی جانب سے دئیے جائیں ۔ اپنے مالک کی آواز اور ایکسپریشنز کو دیکھ کر کتا اور بھی کتا بن جاتا ھے اور پہلے سے بھی زیادہ زورو شور سے بھونکنے لگتا ھے اور کبھی کبھار تو کاٹنے کے لیے حملہ آور بھی ھو جاتا ھے ، صرف اسی لیے کہ وہ کتا ھے اور کتا اگراپنا کتا پن نہ دکھائے تو اسے کتا کون کہے ،
مجھے کتوں کے کتے پن سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا ٹاک شوز میں کیا میسج دیا جارھا ھے قوم کو ، بیٹا باپ کو ، شاگرد استاد کو ، بیوی شوھر کو ، باپ اولاد کو ، ماں بیٹیوں کو بیٹیاں معاشرے کو ؟
مگر چھوڑیں اچھے بھلے
آرٹیکل میں میں بھی کس ٹاپک کو لے بیٹھا ۔ میرا خیال ھے مجھے اپنے اصل مضمون پر ھی رھنا چاہیے میں بھی نہ تھوڑا کھسک جاتا ھوں حالانکہ اتنا خوبصورت ٹاپک ھے کتے اور میں کتوں سے انسانیت پر
آجاتا ھوں ۔
کتے سب بھونکنے والے ھی نہیں ھوتے بلکہ کچھ کتے بہت خطرناک ھوتے ہیں اور بھونکتے کم ہیں اور چیر پھاڑ ذیادہ کرتے ہیں ۔ ایسے کتے دیکھنے میں بھی بہت خوفناک نظر آتے ہیں جبکہ میں نے کچھ ایسے کتے بھی دیکھے ہیں جو تھوڑا بھونکتے ہیں اور کاٹتے ذیادہ ہیں مزے کی بات ھے کہ ان کی رنگ اور نسل کی کوئی قید نہیں ھوتی اگر پتہ ھو کہ کونسے رنگ نسل کے کتے صرف بھونکتے ہیں اور کس رنگ اور نسل کے کتے ذیادہ کاٹتے ہیں تو شائید ھمارے خوف میں تھوڑی کمی کا سبب بن جائے ۔
کتے کالے بھی ھوتے ہیں سفید بھی چتکبرے بھی اور خاکی بھی مگر کونسا کتا ذیادہ خطر ناک ھے اس کا اندازہ کتے کے بھونکنے اور کاٹنے سے ھی لگایا جاسکتا ھے ۔ بعض کتے پاگل بھی ھوتے ہیں جبکہ یہ کتے زیادہ خطر ناک ھوتے ہیں ۔ بھونکتے بھی ہیں اور بھونکتے بھونکتے کاٹنے کو بھی پڑ جاتے ہیں ۔ اب دیکھا جائے تو ایسے کتوں سے شکائیت اور گلہ کیسا ؟
ایک تو کتے اوپر سے پاگل ،
ایسے کتوں کے منہ سے غصے کی حالت میں جھاگ بھی نکلنے لگتی ھے ۔ بس یہی ایک نشانی ھے پاگل کتے کی اور باقی نشانیاں ھوش آنے پر چودہ ٹیکوں کے بعد معلوم ھوتی ہیں ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کتااور وہ بھی پاگل ایسے کتوں کو دیکھتے ہی اپنے راستے جدا کر لینے چاہیے ۔ نہیں تو عزت اپنے ھاتھ میں ہی ھوتی ھے اس لیے فیصلہ بھی اپنے ھی ھاتھ میں ھوتا ھے کہ ایسے کتوں سے کتوں والی کروانی ھے یا فاصلہ رکھ کر سر جھکا کر ادب سے گذر جانے میں ھی عافیت جانی جائے ۔
مجھے پاگل کتوں کی بات سے یاد آیا کہ آج کل کیا ھوگیا ھے ہمارے لیڈروں کو حکمرانی میں ھوتے ھوے بھی ایسی ایسی پریس کانفرنسسز کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ؟ کتے بھی اگر ایسی پریس کانفرنسسز سن لیں تو اپنا کتا پن بھول جائیں۔
اوہ میں بھی کیا ھوں بار بار اتنے خوبصورت ٹاپک سے ہٹ کر کہیں اور کھو جاتا ھوں ۔
کچھ کتے لوکل ھوتے ہیں اور کچھ امپورٹڈ ، لوکل کتوں کی تو کیا ھی بات ھے ، ان میں بھی دو طرح کے کتے پائے جاتے ہیں ۔ آوارہ اور پالتو ،
آوارہ کتوں کی تو بات ھی نرالی ھے نہ مالک کا خوف نہ آواز کی بندش کا مسلہ نہ وقت کا خیال نہ دن اور رات کی قید نا چھوٹے بڑے کا لحاظ بس جب دل کیا جہاں دل کیا جس پر دل کیا جو ناگوار گزرا اس پر جو بھو بھونکنے لگتے ہیں تو خاموش ھونے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ آوارہ کتے دیکھنے میں ناکارہ مریل سے نظر آتے ہیں ۔ جہاں دل کیاسڑک پر بیٹھ گئے نہ لوگوں کے آنے جانے کا ھوش نہ جگہ کا تعین بس جہان جگہ ملی اور موصوف براجمان ھو گئے مگر جب موصوف کی دم پر پیر آجائے تو ایسا شور مچاتے ہیں کہ سارے محلے کواپنے وجود سے دھلا دیتے ہیں ۔ معلوم نہیں بھونکتے وقت ایسے کتوں میں اتنی انرجی کہان سے آجاتی ھے جو بھونکتے بھونکتے تھکتے بھی نہیں ۔ اور اتنی زور دار آواز میں بھونکتے ہیں کہ کمزور دل افراد کو تو کئی کئی دن نیند بھی نہیں آتی ۔ خوابوں خیالوں میں بھی صرف کتے ہی نظر آتے ہیں ۔
ایسے کتے صرف ھڈیوں پر ھی خوش ھو کر دم ھلانے لگتے ہیں ۔ آوارہ کتوں کا مالک وہی ھوتا ھے جو انہیں ھڈی ڈال دے ۔ آوارہ کتوں کا نصیب اور مقدر شائید صرف ھڈی ھی ھوتا ھے اسی ایک ھڈی پر ہی وہ پیر چاٹ چاٹ کر سفید کر دیتے ہیں ۔
جبکہ انہی میں پالتو کتےبھی ھوتے ہیں ۔ کیا خوب مہذب ھوتے ہیں پالتو کتے ۔ مالک کے اشارے پر کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ مگر بھونکتے کم ہیں اور بھونکتے بھی ہیں تو مالک کے اشارے پر ھی بھونکتے ہیں ۔ مگر ایسے پالتو کتوں کی خوراک بہت مہنگی پڑتی ھے ۔ ایسے کتے صرف ھڈیوں پر گزارہ نہیں کرتے بلکہ ھڈی کے ساتھ گوشت کی وافر مقدار نہ ملے تو کبھی کبھار مھا کتے بھی بن جاتے ہیں ۔ ایسے کتے بڑے سجے سنورے نظر آتے ہیں۔ بس ان کی ایک ھی نشانی ھوتی ھے کہ ان کے گلے میں پٹہ ھوتا ھے جس سے ان کی پہچان آسان ھوتی ھے ۔ پالتو کتوں سے مجھے یاد آیا کہ ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ اور پانی کے مسئلوں کا کیا بنا میرا خیال ھے کہ ڈیم بھی بن گئے ھونگے اور پانی کا مثلہ بھی حل ھو گیا ھوگا ۔ تمام اداروں اور معیشت کو تو ایسا کھینچا تھا کہ اب کبھی کوئی مسئلہ پیدا ھو ھی نہیں سکے گا جبکہ افتخار چوھدری جیسے عظیم انسان کے لیے جتنا بھی احسان مند ھوا جائے کم ھے خیر اپنے محسنوں کو یاد کر لینے سے عارضی طور پر تکلیف بڑھ ضرور جاتی ھے مگر احسانات تو احسانات ھی ھوتے ہیں،
اوہ میں بھی کتوں سے اپنے عظیم محسنوں تک چلا جاتا ھوں ۔
یہ بھی میرے ذھن کی اختراع ھی ھے کہ اچھا بھلا ایک مضمون لکھتے لکھتے ادھر ادھر سوچنے لگتا ھوں۔
کتوں پر ھی رھا جائے تو اچھا ھے ایسا نہ ھو کہ محذب کتے ناراض ھو جاہیں اور ان میں کتا پن جاگ جائے ۔ پھر سوچیں میری کتوں والی ھوتی ھے یا انسانوں والی ۔ اچھا ہم۔پھر اپنے اصل ٹاپک پر ھی آجاتے ہیں ۔
کتوں پر
کتوں کی ایک نسل امپورٹڈ کہلاتی ھے ، ایسے کتے انتہائی مھذب ھوتے ہیں ۔ مالک کے اشارے پر چلتے ہیں مالک کے اشارے پر ناچتے ہیں اور مالک کے اشارے پر ھی کھاتے ہیں۔ ایسے کتے سرکس میں استعمال ھوتے ہیں ایسے کتوں میں مالک کے اشاروں کو سمجھنے کی بہت صلاحیت ھوتی ھے ۔
ایسے سرکس کے پالتو کتے بھونکتے بھی ہیں تو مالک کی چھڑی کے اشارے پر ۔ ناچتے بھی ہیں تو چھڑی کے اشارے پر ھی ۔ سرکس کے کتوں میں یہ خوبی ھوتی ھے کہ وہ بہت قیمتی ھوتے ہیں جہاں تک مجھے معلوم۔ھے انسانوں کو سفری سہولیات کے لیےپاسپورٹ کی ضرورت ھوتی ھے کتوں کو نہیں ۔ میرا گلہ یہی ھے کہ انسانوں کے لیے اگر پاسپورٹ ضروری ھے تو کتوں کے لیے کیوں نہیں ۔ یا شائید اس لیے کے کتے تو کتے ھوتے ہیں کاٹ لیتے ہیں مگر انسان نہیں کاٹتے ۔ امپورٹڈ کتوں سے پتہ نہیں کیوں میرے ذھن میں سنتھیا رچی کی خوبصورت شخصیت کیوں آگئی ۔ مگر میں اس وقت میں اپنے ٹاپک سے نہیں ھٹونگا۔
کیونکہ۔مجھے معلوم ھے کہ سنتھیا رچی ایک خوبصورت اور انتہائی طاقتور شخصیت کی حامل دوشیزہ ہیں۔ جبکہ میں اس وقت آپنے ٹاپک سے نہیں ہٹنا چاھتا۔ کتوں پر ھی واپس آجانا چاہیے ۔
کتوں کے ذوق مزاح اور کتوں کی شعرو شاعری اور مشاعروں پر اور کتوں کی موج مستیوں پر تو پطرس بخاری نے خوب روشنی ڈال دی تھی اور ہماری طرف لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ذیادہ ھونے کی وجہ سے میں مزید کتوں کے کتے پن پر روشنی ڈالنے سے قاصر ھوں ۔ اس لیے پطرس بخاری صاحب سے ہی اتفاق کرنے میں اپنی بھلائی سمجھتا ھوں ۔ پطرس صاحب کو گلہ تھا کہ ان کے دور کے کتے اتنے کتے ہیں کہ کوٹ پتلون پہنے کسی کو بھی دیکھا تو بھونکنے لگتے ہیں مگر آج کے کتے تو اگر پطرس صاحب کے دور میں ھوتے تو شائید پطرس صاحب کبھی کتوں پر لکھا بھی پسند نہ کرتے کیونکہ آج کے کتے تو نا اپنے سے چھوٹوں کو دیکھتے ہیں نہ اپنے بڑوں کو کسی کا لحاظ ھی نہیں رھا آج کے کتوں کو جسے دیکھا اسی پر بھونکنے لگتے ہیں ۔
میرے تعلقات تو ویسے بھی کتوں سے بہت کشیدہ رھتے ہیں کیونکہ بھونکتے کتے مجھے پسند نہیں اور ویسے بھی کتوں سے جب تک راھو رسم بڑھاتا ھوں تب تک کتے اپنا کتا پن دکھا چکے ھوتے ہیں ۔ اب ہمارے پاس ایسے کارڈ بھی نہیں جسے کتوں کی یونین نے جاری کیا ھواور جسے دکھا کر خلاصی پائی جاسکے ۔ کتے تو کتے کتوں کے بچوں سے بھی ڈر کر گزرنا پڑتا ھے کسی سے بھی راہ چلتے واسطہ پڑ جائے تو پورا خاندان جمع ھو کر خوب کتوں والی کرڈالتا ھے ۔ اس لیے ہم تو کتوں کے بچوں سے بھی ھاتھ جوڑ کر کوسوں دور سے ھی گذر جاتے ہیں ۔ کہیں موصوف کو ہمارا گذرنا یا ہماری کوئی گستاخی ناگوار نہ گزرے ۔
ویسے میں پطرس بخاری صاحب کی ایک بات سے بلکل متفق ھوں کہ اگر کتوں کو ہم سے گلہ ھو تو کیا ضرورت ھے کہ پورا خاندان ہمارے سامنے مشاعرے کے لیے حضر ھو جائے ۔ کتوں کو بھی توشائستگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کوئی ایک نمائندہ آ کر ہم سے مذاکرات کر کے ہمیں بتا دے کہ اس راست پر ہمارا حق نہیں ھے اور ہم میں اتنی جرائت کہا کہ کتوں کے حکم کی حکم عدولی کر سکیں ۔ ہمیں کتوں والی ھونے سے بہت خوف آتا ھے ۔ پطرس صاحب نے تو لکھا تھا کہ اگر انہیں کچھ عرصے کے لیے اعلی درجے کی بھونکنے اور کاٹنے کی صلاحیت مل جائے تو ان میں انتقام جنون بہت ھے مگر مجھ میں تو شائید اتنی ہمت بھی نہیں ۔ پطرس صاحب نے تو یہ بات شاید ازراہ مذاق لکھی مگر حقیقت یہی ھے کے کتوں والی ھونے سے ھر کوئی ڈرتا ھے کیونکہ کتوں سے فاصلہ رکھنے میں ھی بھلائی ھے ۔ آپنی بھی اور انسانیت کی بھی ۔
کتوں کے لیے بڑوں چھوٹوں پہ بھونکنے کی بھی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ کتے پاگل ہوں تو اپنے باپ سے بڑی عمر کے انسان پر بھی بھونک سکتے ہیں اور اگر پٹہ بندھا ہو تو اپنی اولاد کا کتا پن بھی برداشت کر جاتے ہیں ۔
کتوں کا جوابی خط بھی شائید آپ خضرات نے پڑھا ھو جو پطرس بخاری نے اپنی کتاب میں چھپواتو دیا مگر شائید اپنی باقی ماندہ زندگی کتوں سے شرمندہ ہی رھے ۔ کہ ان کی وجہ سے کتوں کی عزت پر حرف آیا ۔
کتوں کے جوابی خط میں پطرس بخاری لکھتے ہیں کہ۔
کتے ۔
“ہماری مقبولیت کے آپ منکر ہوں تو ہوں مگر حق بات یہ ہے کہ دنیا کو اس وقت ہماری سخت ضرورت ہے۔ ساری دنیا کی آنکھیں ہماری قوم پر لگی ہوئی ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے میں نے آپ کی قوم کے ایک ممبر کو دعا کرتے پکڑا تھا۔ وہ حضرت گڑگڑا رہے تھے :
“چھوٹا بھائی ہونے سے کتا ہونا گوارا ہے۔”
اس وقت میں نے اندازہ کیا تھا کہ دنیا کس تیزی سے ہمیں اپنانے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے”
( مجھے کتوں کی اس بات پر ذرا تعجب نہیں ھوا کیونکہ کیا غلط کہا ھے کتوں نے بھی آ ج دنیا کو انہی کتوں کی کتنی ضرورت ھے یہ سب کو پتہ ھے )
کتے
” وہ کتا ہی کیا جو نہ بھونکے۔ اگر کتا ہوگا تو بھونکے گا ضرور۔ ہم اکثر چلتے وقت بھونکا کرتے ہیں۔ مگر یہ ہمارا محض اسٹائل ہوتا ہے “
( اس میں بھی کیا غلط کہا ھے کتوں نے ؟ ھر کسی کا اسٹائل ھو سکتا ھے تو کتوں کے اسٹائل پر شکائت کیسی ۔ اور وہ کتا ہی کیا جو بھونکے نہ جبکہ کتوں کا تو کام ھی بھونکنا ھوتا ھے اور ہم انسان خام خواہ اعتراض کرنے لگے کتوں کے بھونکنے پر )
کتوں کا یہ گلہ بھی غلط نہیں جو خط میں لکھا کہ ،
کتے
” اطمینان رکھئے، ہم میں آپ کو شاعر ملیں گے نہ لیڈر۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارا کوئی فرد صاحبِ دیوان نہیں پایا گیا۔ ہمارے یہ اجتماع در اصل کھیل کود کے ہلکے پھلکے ورزشی مظاہرے ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہم نے آپ ہی سے سیکھا ہے۔ ابھی حال میں آپ کے ایک جلسہ میں شرکت کرنے اس خیال سے گیا کہ دیکھیں ایسے موقعوں پر آپ لوگ کیا کیا کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ ایسے موقعوں پر آپ لوگ جو دنگل کرتے ہیں اس کو الیکشن لڑانا کہتے ہیں۔ الیکشن تو کہیں نظر نہیں آیا ہاں اس مار پیٹ کے ہنگامے میں کئی بار پٹتے پٹتے بچا اور وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگا “
( کتوں کا یہ گلہ درست ھے ، ہم نے کتوں کے سامنے کونسی اچھی مثال پیش کی جو کتوں کی اصلاح کے کام آتی ہم بھی تو کتوں سے بڑھ کر اپنے آپ کو کتا ثابت کرنے میں لگے ھوے ہیں )
کتے
“لڑنا بری بات نہیں، لڑنے کو آخر ہم بھی لڑاہی کرتے ہیں۔ مگر لڑنے کے لئے ہم نہ اپنے سے کمزور کو تلاش کرتے ہیں۔ نہ لڑائی میں شرکت کرنے کے لئے لڑتے ہیں۔ اپنے حریف کو دیکھ کر ہم غرانے لگتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اگر کوئی ARGUMENTS پیش کرنے کے بجائے دُم دبا کر چلا جائے یا خاموشی سے ڈائلاگ سننے پر قناعت کرے تو ہم اس پر حملہ نہیں کرتے۔ لڑنے کے وقت ہم صرف لڑتے ہیں مگر نہ ہم لڑائی ختم کرنے کے لئے لڑتے ہیں نہ سبق سکھانے کے لئے۔ ہم کو لڑنے کے لئے آپ کی طرح مذہب یا امن کا سہارا بھی نہیں لینا پڑتا۔ ہمارا سارا غصہ سوڈے کا ابال ہوتا ہے۔ ذرا دیر کی مہابھارت کے بعد ہمارا دل اور جھگڑا صاف ہو جاتا ہے۔
ہمارے یہ جھگڑے خالص اصلاحی قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ مگر واضح ہو کہ ہم لوگ صرف جلسہ کرتے ہیں چندہ کبھی نہیں کرتے”
(یعنی کتوں نے ہماری تذلیل کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی اپنے اس جوابی خط میں )
کتے
“دنیا کی تباہی اور انسانوں کی انسانوں سے عصبیت اور کم ظرفی کے باعث ہمیں دن میں آرام سے جاگنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے طے کر لیا ہے کہ جب تک انسان، انسان نہ ہو جائے ہم دن کو سویا کریں گے۔ ہم ان کی حرکتوں کو نظر انداز کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں”
“عورتوں کے حقوق آپ ہم سے مستعار لے سکتے ہیں۔ اس بیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں اس قدر مساوات ہے کہ اگر ہم ایک دفعہ اپنی بیگم صاحبہ پر بھونکنے کا ارادہ بھی کریں تو وہ ہم کو اس درمیان میں تین چار مرتبہ کاٹ کھائیں گی یا اس وقت تک لگاتار بھونکتی رہیں گی جب تک ہم اپنا ارادہ POST PONE نہ کر دیں۔ “
“اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ جس قوم کے پاس لاٹھی اور بھینس دونوں ہی مفقود ہوں، جو قوم شاعر، لیڈر اور سیاست دانوں سے یکسر خالی ہو، آپ اس کو خراب کہاں سے کہہ سکتے ہیں؟ جن کے آدرش اتنے بلند ہوں کہ وہ ‘زندہ رہو اور زندہ رہنے دو’ کے لئے دن رات بھونکتے رہتے ہوں ان کو آپ انسانوں پر فوقیت کیوں نہیں دے سکتے ؟”
: میر تقی میر نے بھی پطرس بخاری سے مضمون سے مغلوب ھو کر پوری نظم ھی کتوں پر لکھ ڈالی ۔
کتوں کے چاروں اور رستے تھے۔کتے ہی واں کہے تو بستے تھے
سانجھ ہوتے قیامت آ ئی ایک۔شورعف عف سے آفت آئی ایک
لوگ سوتے ہیں کتے پھرتے ہیں۔لڑتے ہیں ،دوڑتے ہیں،گرتے ہیں
جاگتے ہو تو دُوبدو کتے۔۔سوکراٹھو تو رُوبروکتے
باہراندرکہاں کہاں کتے۔بام ودر چھت جہاں تہاں کتے
کتے یارو کہ جان کا تھاروگ۔جاں بلب ہوں نہ کس طرح سے لوگ
آدمی کی معاش ہو کیوں کر۔۔کتوں میں بودوباش ہو کیوں کر