تعلیمی اداروں کی بندش اور ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر

Spread the love

جہلم(ریاض چوہدری کے قلم سے)

“نویں دسویں کے امتحانات سر پر ہیں۔ مگر تعلیمی ادارے بندکر دیئے گئے ہیں۔حکومت اپنی نااہلیوں کوسردی اور اسموگ کی آڑ میں چھپا کر طلباء وطالبات کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔جغرافیائی تبدیلیوں کی بدولت موسموں کے تغیر و تبدل سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ہی متاثر ہو رہی ہے۔مگر دوسرے ممالک کے پاس موسموں کےان غیر متوقع تغیر و تبدل سے نمٹنے کے لیئے پلان بھی بھی ہوا کرتا ہے ۔جبکہ پاکستان کے اہل اقتدار و صاحبان اختیار کے پاس ان غیر متوقع طور پر ہونے والی ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا کوئی متبادل منصوبہ نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے وہ چارو ناچار طلباء وطالبات کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کر دیتے ہیں ۔”
ان خیالات کا اظہار ضلع جہلم کی معروف سماجی شخصیت،صحافی اور کالم نگارریاض احمد چوہدری نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ۔انہوں نے مذید کہا کہ

پنجاب کے ارباب اختیار تعلیمی اداروں کی بندش اور چھٹیوں میں توسیع پر ہمدردانہ غور فرمائیں۔کہ تعلیمی اداروں اور تعلیم کی بندشکی وجہ سے وہ نادانستہ طور پر بچوں اور ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ھیں۔
وہ سال بھر میں تعلیمی اداروں میں اتنی چھٹیاں دے رہے ہیں کہ اب تعلیم کا دورانیہ سال کے 365 دنوں میں سے بمشکل 100 کے لگ بھگ دن تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے رھے ہیں۔ خدا کے لیئے کچھ خیال کریں کہ پورے سال کا سلیبس اساتذہ کرام کیسے ڈیلیور کر سکیں گے اور معصوم بچے کیسے اس تین گنا اسباق کو سمجھ اور اذہان میں بٹھا سکیں گے۔
ہمارے ملک میں موسموں میں شدت آئے ۔ سیاسی سرگرمیاں ہوں جلسے جلوس ھوں دھند ہو تو سب سے پہلے تعلیمی ادارے بندکیئے جاتے ہیں۔ کیا ان چیزوں کا باقی اداروں یا عوام پر اثر نہیں پڑتا ۔ سارا نزلہ تعلیمی اداروں پر ہی کیوں گرتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم کریں۔ دہواں چھوڑنے والی انڈسٹری ۔ بھٹے ۔ گندے تیل سے چلنے والی بھٹیاں بند کریں ۔ تعلیم میں ھی کیوں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے ؟
ہمیں اپنے بچوں , اپنے مستقبل کو جفاکش محنتی مضبوط جسم مضبوط اعصاب, سخت کوش اور مشکلات کا سامنا کرنے والا باہمت انسان بنانا ہے نہ کہ موسموں کی شدت سے ڈرنے والا انسان بنانا ہے۔ ایسے نرم و نازک بچے زمانے کی سختیوں کا کیا مقابلہ کر سکیں گے۔ یہ تو سردی گرمی بارش آندھی دیکھ کر گھروں میں ہی دبکے رہیں گے ۔ زمانے میں زندہ رہنے کے لیئے سخت کوشی حوصلہ ہمت اور عزم مصمم چاہیئے ۔یورپ میں شدید برفباری میں بھی تعلیمی ادارے بند نہیں ہوتے وہ تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ تعلیم سے ہی ان بچوں نے بڑے ہو کر ملک کی باگ دوڑ سنمبھالنی ہے اور اس سخت کوشی سے ہی زمانے اور موسموں کی سختیوں کا مقابلہ کرنا ھے ۔

آسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
میرے حوصلوں کے آگے یہ آسماں کچھ کم ہے

میں نے اس موضوع پر مادہ شاھین کے بارے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ جب شاھین بچے پرواز کے قابل ہوتے ہیں اور مادہ شاہیں نے ان کو پرواز سکھانی ہوتی ہے تو مادہ شاھین بچے کو اپنے پنجوں میں دبا کر 10 سے 12 ھزار فٹ کی بلندی پر لے جاتی ھے اور اسے فضا میں چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ایک پتھر کی طرح تیزی سے زمین کی جانب گرتا ہے مادہ شاہین بھی بچے کے پیچھے پیچھے غوطہ زن ہو جاتی ہے ۔ زمین سے کچھ اوپر جب شاھین بچہ موت کے خوف سے اہنے پر پھڑپھڑاتا ہے اور اڑنا شروع کر دیتا ھے ۔ اگر وہ پر نہیں کھولتا تو ماں زمین پر گرنے سے پہلے اسے اپنے پنجوں میں پکڑ کر پھر بلندی پر لے جاتی ہے بار بار اسے فضا میں گراتی ہے تاوقتیکہ کہ وہ زمین پر گرنے سے پہلے اپنے پر کھول کر اڑنا شروع کر دیتا ہے اور پرواز کرنا سیکھ جاتا ہے۔
اسی طرح شائد میٹرک یا ایف اے کے سلیبس میں ایک سبق تھا MY FIRST FLIGHT. یہ (سیگل) بگلے کے بچے کے بارے میں بھی ایسا ہی مضمون کہ وہ کیسے اڑنا سیکھتا ہے وہ بھی جب گھونسلے سے چھلانگ لگاتا ہے تو موت کے خوف سے اپنے پر کھول کے پھڑپھڑاتا ہے اور پہلی پرواز کر لیتا ھے
میں شمالی علاقہ جات کے پی کے اور بلوجستان کے علاقوں میں بھی رہا ہوں ۔ وہ بچوں کو پہاڑوں پر چڑھنا صحراوں میں پھرنا غرض بچوں کو جفاکش اور مضبوط جسم بنانے انکی قوت برداشت بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ زمانے میں زندہ رہنے کے لیئے نرم و نازک جسم نہیں ایک مضبوط اور محنتی جسم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہمیں اپنے بچوں کو اقبال کے شاہین بچے بنانا ہے تو انھیں سخت کوش۔ جفاکش محنتی بلند عزم و ہمت والا اور ستاروں پہ کمند ڈالنے والا بنانا ہے ۔ ہمیں ان میں وہ عقابی روح بیدار کرنی ہے جو ان کو اپنی منزل آسمان کی بلندیوں میں نظر آنے لگے ۔

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رھیں گے جو کھلنے والے ہیں

ہمارے ارباب اختیار بچوں کو
نرم نازک چھوئی موئی ٹائپ کا انسان سمجھ رہے ہیں۔ بچوں کو موسموں کی شدت برداشت کرنے کا عادی بنانا ہوگا ۔
حکومت کی تعلیمی اداروں کی بندش اور بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسی میں سمجھتا ہوں ملک دشمن پالیسی ہے ۔
ایک اہم بات کہ معدودے چند بچے ہی سمجھدار والدین کے دباؤ سے اپن کتابیں کھولتے ہیں ورنہ زیادہ تر بچے کھیل کود وغیرہ میں وقت گزارتے ھیں۔ تعلیم سے دوری بچوں کو دوسری مصروفیات کی طرف راغب کرتی ہے ۔ وہ اپنا وقت کیرم کلب ۔ سنوکر کلب ۔ شیشہ ہاوسز وغیرہ میں جانا شروع کر دیتے ہیں۔یا گلی محلے کے لوفر اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ وقت گزاریں گے تو وہ کیا سیکھیں گے ۔ ان جگہوں کا ماحول کیسا ہوتا ھے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گالم گلوچ ۔ لڑائی جھگڑے مار کٹائی کے ماحول کیں رہ کر یہ کیسی تربیت حاصل کر سکیں گے۔ اور ہم ان بچوں کی کیا کردارسازی کر سکیں گے۔ بچے سگریٹ نوشی منشیات کے عادی بھی بن سکتے ھیں۔ ہمیں اور والدین کو بھی اس کے خلاف کوئی مضبوط مہم چلانی ہوگی تاکہ ہم اپنے بچوں کو ان خرافات سے بچا سکیں اور تعلیم میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آنے دیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

یہ اقبال کے شاہیں بچے ہیں انھیں پروں کے نیچے چھپا کے نہ رکھیں۔ انھیں موسموں اور زمانے کی سختیاں برداشت کرنے کا عادی بنائیں کہ کل ملک کی باگ دوڑ ان شاھین بچوں نے ہی سنمبھالنی ہے ۔

شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں