معذور افراد اور ڈیجیٹل مردم شُماری

Spread the love

تحریر: مشتاق مہمند

محترم چیف جسٹس صاحب جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق دنیا بھر میں ہر دس سال بعد تمام ممالک میں خاص و عام لوگوں کی طرح معذور افراد کی مردم شماری کسی بھی ریاست کی اولین ترجیح اور ذمہ داری ہوتی ہے، اور یہ کہ ہر معذور فرد کی (معذوری کی نوعیت) بھی ظاہر کرنا لازمی ہوتی ہے، تاکہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو بھی معلوم ہو کہ ہمارے ملک میں جسمانی، ذہنی، نابینا اور قوت گویائی و سماعت سے محروم معذور افراد کی تعداد کتنی ہے تاکہ سالانہ بجٹ میں ان کے لئے رقم مختص کرنا، اور اسی مختص رقم کو صحیح جگہ استعمال سے معذور افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنانے میں آسانی ہوگی، لیکن بدقسمتی سے پاکستان بننے سے لے کرآج تک یعنی 73 سالوں میں آج تک پورے ملک میں جتنی دفعہ مردم شماری ہوئی ہے، اسمیں ہر بار معذور افراد کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، جس سے معذور افراد میں مایوسی اور خوف کی فضا قائم ہوچکی ہے، اور لگ بھگ تین (3) کروڑ معذور افراد اپنے آپ کو، اپنے ہی ملک پاکستان میں غیر محفوظ اور اپنے حقوق کی فراہمی سے محروم سمجھنے لگے ہیں ، جو پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔جناب چیف جسٹس صاحب !آپ یہ سن کر حیران و پریشان رہ جا ئیں گے کہ عالمی ادارہ صحت، ڈبلیو۔ایچ۔او (W.H.O) نے 2017 ءمیں جو سروے رپورٹ معذور افراد کی تعداد کا جاری کیا تھا، اس رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں معذور افراد کی تعداد لگ بھگ تین (3) کروڑ افراد پر مشتمل تھی، جو آبادی کے تناسب سے (14.2) فیصد بنتی ہے اور بدقسمتی سے یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، اتنی بڑی تعداد میں معذور افراد کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، لہذا آپ ( چیف جسٹس ) سے ملک بھر کے تمام معذور افراد کی ہمدردانہ اپیل ہے کہ “اسلام کے نام پر بننے والاملک پاکستان میں” معذور افراد کی مردم شماری کو ریاستی حکمران، آپ صاحبان کے حکم پر اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور جلد از جلد معذور افراد کی مردم شماری (معذوری کی نوعیت) کے مطابق مکمل کی جائے، تاکہ اس” اسلامی مملکت” میں معذور افراد کو بھی اپنے تمام جائز حقوق مل سکیں، جب تک معذور افراد کی گنتی معذوری کی نوعیت کے مطابق نہیں ہوگی، تب تک ان کے مسائل کو حل کرنا کسی بھی ریاستی حکمران کے بس کی بات نہیں۔ لہذا آپ صاحبان اپنے اختیارات کو استعمال کرکے معذور افراد کو انکے تمام جائز حقوق آسان طریقہ کار سے بہم پہنچانے کے احکامات صادر فرمائیں۔ چیف جسٹس صاحب دوسری گزارش یہ ہے کہ ہر دفعہ پاکستان بھر میں اقلیتی برادری کو مردم شماری میں شامل کیا جاتا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے، اقلیتی برادری پاکستان میں کل آبادی کی شرح تناسب کے مطابق چار (4) فیصد ہے، اور اس طرح اقلیتی برادری کو صوبائی، قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں مختص نشستیں دی گئی ہیں جو انکا آئینی اور قانونی حق ہے، لیکن معذور افراد پاکستان کی کل آبادی کا (14.2) فیصد اسی طرح معذور افراد کو بھی صوبائی، قومی اسمبلیوں اور سینٹ میں بھی نمائندگی دی جائے، تاکہ معذور افراد بھی اپنے جائز حقوق کے لئے اسمبلیوں کے فلور پر اپنی آواز اٹھا سکیں کیونکہ معذور افراد کی نمائندگی اور حقوق کے حصول کی جنگ صرف اور صرف معذور افراد ہی لڑ سکتا ہے،جبکہ معذور افراد کے مسائلِ کو صرف اور صرف معذور افراد ہی بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں.جناب چیف جسٹس صاحب! 2013ءمیں جب خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت کے سربراہ اور باقی نمائندگان نے معذور افراد سے وعدہ کیا تھا کہ وہمعذور افراد کا ڈس ایبیلٹی بل (ایکٹ) پاس کرائینگے جس سے خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کے معذور افراد کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، اور معذور افراد کو ترقی یافتہ ممالک جیسے معذوروں کی طرح زندگی کے نہ صرف تمام تر مراعات اور سہولیات فراہم ہونگی بلکہ ان کروڑوں کی تعداد میں موجود معذور افراد ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اگر معذور افراد کو ایسے مواقعے فراہم کئے جائیں تو یہ لوگ ملکی معیشت کو بڑھانے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم (معذور افراد) آج بھی اپنی بنیادی انسانی حقوق سے مکمل طور پر محروم ہیں، جیسا کہ ہمیں نصابی تعلیم، فنی تعلیم، صحت اور روزگار کے علاوہ رکاوٹوں سے پاک معاشرہ کچھ بھی میسر نہیں،
جناب چیف جسٹس صاحب !جوں جوں ملک کی آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسی طرح معذوری کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی معذوری پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہایت ضروری ہیں اور معذور افراد کو معاشرے کا فعال اور مفید شہری بنانے ڈس ایبیلٹی بل کو اسمبلیوں اور سینیٹ سے پاس کروانا بھی نہایت ضروری ہے ، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ معذور افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانا نا ممکن ہو جائے گا، اس کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے یہ بھی درخواست کی جاتی ہے کہ معذور افراد کو ترجیحی بنیادوں پر نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ایجوکیشن (فنی تعلیم) فراہم کرنے کے لئے ایسے اداروں کا قیام خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں ضروری اور جلد عمل میں لایاجائے جہاں معذور افراد کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم اور دیگر مثبت سرگرمیوں سے روشناس کروایا جا سکے تاکہ کل کو وہ اپنے گھر اور معاشرے پر بوجھ نہ بنے، بلکہ ملکی ترقی میں عام لوگوں سے زیادہ بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،
شکریہ !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں