پاکستان کے عیاش و نااہل حکمران

Spread the love

تحریر و کالم نگارمفتی خلیل الرحمن
کراچی 🌹🌹🇵🇰🇵🇰✍️✍️

کسی زمانے میں ایک کتاب آئی تھی جس کا نام تھا “پارلیمنٹ سے بازارِ حُسن تک” اس کتاب میں پاکستانی سیاستدانوں کے سیاست میں آنے کے بعد پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں پہ عیاشیوں اور دیگر شعبہ جات کے حوالے سے جس میں نامور ادارکار، ماڈلز، کھلاڑیوں کے کارنامے بھی درج تھے یہ کتاب جتنی مقبول تھی اتنی ہی متنازعہ بھی ثابت ہوٸی پاکستان سیاستدانوں کی تو اس کتاب کا نام سن کر ہی جان حلق میں آجاتی تھی اس کتاب کو کڑی پابندیوں کا بھی سامنا رہا
خیر وہ کتابوں کا دور تھا کچھ شرم و حیاء کا دور تھا عزت چاردیواری میں تھی طوائفیں اور تماش بین تھے بھی تو کوٹھے تک ہی محدود تھے اور کوٹھے اور طوائفیں بھی محدود نیک و کار اور شرفاء کہلائے جانے والے مرد حضرات دنیا سے منہ چھتاتے ہانپتے کانپتے “رقص” ناچ گانا دیکھنے جایا کرتے تھے اکثر والدین بیٹی کے طوائف اور بیٹے کے تماش بین ہونے کا سن کر ہی غیرت سے مر جانا بہتر سمجھا کرتے تھے۔

خیر ہر چیز میں جدت آساٸش آگئی تو کوٹھوں نے بھی جدید ہونا تھا تو موبائل آگئے پہلے فیس بک واٹس اپ اور پھر ٹک ٹاک، بیگو، جیسا کوٹھا گھر گھر پہنچ گیا ناچنے والے اور تماشا لگانے والے جو کل تک محدود تھے وہ لاتعداد ہوگئے عمر کا لحاظ خاندان کا لحاظ سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا گیا کیونکہ وہ تو کوٹھے تھے یہ تو ایپ ہے جدید دور کی مستی ہے وہ تو طوائفیں اور تماش بین تھے یہ تو “اسٹارز” اور “وویورز” ہیں غیرت سے مر جانے والے والدین کی بچیاں اور بچے اب سارا دن ناچتے ہیں مگر معزز اور شرفاء ہی رہتے ہیں منہ نہیں چھپاتے غیرت سے مرتے نہیں کیونکہ اب جدت آگئی ہے ناں انہیں فخر محسوس ہوتا ہے کہ “ٹک ٹاکرز اسٹارز کے والدین ہیں
کل تک کوٹھے پہ طوائفوں پہ پھینکے جانے والے پیسے حرام تھے مگر آج معاذ اللہ استغفر اللہ یہ کہا جاتا ہے ماشاءاللہ سبحان اللہ بیٹا بیٹی دونوں ناچ کر اسٹار بن کر ٹک ٹاک کی کمائی سے بچوں کی گاڑی میں بٹھا کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی کمائی ہے اسٹارز ہیں بیٹا ماں کے سامنے ناچ رہا ہے بیٹی باپ کے سامنے ناچ رہی ہے پورا خاندان دیکھ رہا ہے مگر جدید کوٹھے پہ کسی کو اعتراض نہیں مگر یہی منظر گلی کوچوں ہوجاۓ تو سب کی غیرت جاگ جاتی ہے ہماری بہن بیٹی کو چھیڑا آنکھ ماری وغيرہ کسی ٹک ٹاکر کے باپ یا بھائی سے کہو تمھاری بہن، بیٹی یا بھائی ناچتی، ناچتا ہے تو جان سے مار ڈالے گا لیکن کہو کہ ٹک ٹاک سٹار ہے تو چائے پلا کر بھیجے گا اور خوب مسکراۓ گا
یہ وہ باتیں ہیں جو بلکل حقيقت ثابت ہوچکی سب یہی کہتے بولتے نظر آتے ہیں یہ خود اپنے آپکو دھوکا دینے والی بات ہے طوائف طوائف ہوتی ہے ناچنے والا بیٹا وہی میراثی ہی ہوتا ہے کوئی ٹک ٹاک پہ ناچے یا کوٹھے پہ جا کر
جہاں کوٹھے کی کہانی گھر تک پہنچی ہے وہیں “پارلیمنٹ سے بازارِ حُسن تک” کی کہانی اب “ٹک ٹاک سے پارلیمنٹ”تک جا پہنچی ہے کل تک سیاہ دان اور معززین جو کوٹھے پہ جاتے پکڑے جاتے یا طوائفوں کے ساتھ نام جڑنے پہ شرم سے منہ چھپائے پھرتے تھے آج بہت فخر سے ناچنے والوں کو ان ایوانوں میں مدعو کرکے عزت افزائی کرتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں، فخر سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان طوائفوں سے نہ انکی عزت پہ حرف آتا ہے نہ ہی شرم محسوس ہوتی ہے عیاش و نااہل حکمران ان کے ساتھ تصاویر و ویڈیوز بنواتے ہیں اور ان اموال سے نوازا جاتا ہے اپنے ملک کے اسٹار سمجھتے ہوۓ اس بے حیاٸی کو مزید فروغ دیتے ہیں۔

ہمارے ایوانوں کو کبھی “مقدس” ایوان کہا جاتا تھا، آج ان کرسیوں پہ ان مقدس دفاتر میں ناچنے گانے والے جدید میراثی اور طوائفیں بناء کسی روک و ٹوٹ کے جا کر براجمان ہو جاتے ہیں جن کرسیوں اور ایوانوں سے ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی اقتدار اور اسلامی قوانین لانے کی امید رکھی تھی
حکومت اور معزز عدلیہ اس تماشے کو دیکھ رہی ہیں کس سے درخواست کرے کس کو شکایت کرے سمجھ سے بالاتر ہے خدارا اس ڈیجیٹل کوٹھے کو بند کیا جائے، ہمارے وزاء، ہمارے گورنرز جن کے عالیشان دفتروں کے سامنے اس ملک کے پڑھے لکھے جوان بےروزگاری اور سرکاری دفتروں میں مارے مارے پھرنے کے بعد اپنی ڈگریوں کو آگ لگا کو خود کشی کر لیتے ہیں، ہماری پڑھی لکھی عزت دار بہنیں، بیٹیاں اپنے حق حاصل کرتے عزتیں گنوا دیتی ہیں مگر ان مقدس ایوانوں تک ان کی آواز نہیں پہنچ پاتی، ان بہنوں بیٹیوں اور ہمارے پڑھے لکھے جوانوں کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ تعلیم چھوڑیں ناچنا شروع کریں جسم فروشی کرے تاکہ ان مقدس ایوانوں تک رسائی ہو تاکہ انکی سنی جائے اگر ایسا ہے تو ٹک ٹاک سکول اور یونیورسٹی بھی کھول لیں کیونکہ اگر ان مقدس ایوانوں اور ان مقدس ایوانوں میں بیٹھنے والے معزز عوامی نمائندوں تک پہچنے کے لۓ طوائف اور میراثی ہونا ضروری ہے تو کل کو رش بڑھنے والا ہے پھر آپ لوگوں کو میراثی اور طوائفیں چننے میں مشکل ہوگی کہ کس کس سے ملاقات کریں
اس لیے اس بےغیرتی کو وقت پہ ہی بند کیجیۓ تاکہ پڑھ لکھے جوان مایوس نہ ہوں، اگر طوائفیں ایسے ہی ہمارے ایوانوں میں گھومتی رہیں ہمارے وزراء ایسے ہی انکے پیچھے لٹو بنے پھرتے رہے تو نہ صرف گھر گھر کوٹھوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے بلکہ ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے بھارت اسرائيل جیسے ممالک چاہتے ہی یہی تھے کہ پاکستانی نوجوان نسل عیاشی پر لگ جاۓ اور ہر شخص چوری پر لگ جاۓ حکمران اس سے بڑھ کر کرپشن کے ماہر ترین ہوجاۓ نہ راشن چھوڑے نہ پانی چھوڑے نہ پیٹرول نہ ملک میں خانہ جنگی مچ جاۓ وغيرہ آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ ناچنے گانے والے اسٹارز نہیں ہوتے طوائفیں اور میراثی ہوتے ہیں بیٹی کے ناچنے کی کمائی پہ حقیقت سے نظریں چرانے سے حقیقت نہیں بدلتی غیرت کھائیں بیٹی کے ناچنے کی کمائی نہیں یہ اسلامی ملک ہے یہاں مزید بےغیرتیاں برداشت نہیں ہوسکتی لہذا اپنے بچوں کی اسلامی تربيت کرے جو کہ دین و دنیا کی بہتری کے لۓ اچھی مثال قاٸم ھوگی تحریر بڑی تلخ و زخمدار ہے مگر کاش اللہ کے حضور ہم سب کو سچی پکی توبہ نصیب ہوجاۓ جانور پرندے بھی بچے پالتے ہیں مگر تربيت نہیں کرتے الحَمْدُ ِلله
ہم اشرف المخلوقات ہیں اس فضیلت کی اہمیت کو ضرور سمجھے اور عمل بھی کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں