ایک خواب کی تعبیر، ایک ضیا کی تنویر

Spread the love

۔ رخت سفر/بشارت کھوکھر ۔

حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و روحانی فیض کی فراوانی اور ارزانی کے لیے شاید کسی روایتی یونیورسٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ “ضیا” ہے، جو 52 سال سے پاکستان اور دنیا بھر میں نور بکھیر رہی ہے۔ اور بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ضیاء الامت کے تلامذہ در تلامذہ، آج ہر جگہ اپنے مرشد و مربی کی عنایات کو تقسیم کر رہے ہیں ،لیکن جانشین ضیاالامت ،حضرت پیر امین الحسنات شاہ صاحب کی خواہش تھی کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف، اور اس کی پاکستان اور بیرون ملک شاخوں میں زیرتعلیم علماء اور فضلاء کو رواٸتی اور عصری یونیورسٹیوں کے مخصوص نصاب پر ڈگریاں لینے کے بجائے۔ اپنی یونیورسٹی سے تسلسل کے ساتھ پڑھے جانے والے نصاب کے مطابق ،جوکہ حضور ضیاء الامت کی فکر اور ادراک سے ہم آہنگ ہوں، اپنی اعلی تعلیم و تحقیق مکمل کریں اور ڈگری بھی حاصل کریں۔ دارالعلوم محمد غوثیہ کا یہ امتیاز رہا ہے کہ دینی علوم کے لئے امتحان خود لیتا ہے، اس کا اپنا امتحانی بورڈ ہے۔ جبکہ عصری تعلیم کے امتحانات ہر شاخ کے قریبی تعلیمی بورڈ یا یونیورسٹی سے دلوائے جاتے ہیں، اور دارالعلوم کے طلبہ نے ہر بورڈ میں نمایاں حیثیت سے امتحان پاس کرکے اپنے ادارے اور اساتذہ کرام کا سر بلند رکھا ہے۔ فیڈرل بورڈ اسلام آباد میں کئی سال تک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے طلبہ آرٹس گروپ میں پہلی پوزیشنیں لیتے رہے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کے ڈگری پروگرامز میں بھی حضور ضیاء الامت کے علمی فیض کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ دن بدن بڑھتے اس فیضان کو مربوط اور مضبوط کرنے کے لیے، اعلیٰ ڈگری پروگرام بھی منفرد اور مخصوص ہو ۔جہاں تک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے مہتمم اعلی حضرت پیر امین الحسنات کی ذات کا تعلق ہے تو ان کا سیاسی تعلق مسلم لیگ ن کے ساتھ ہونے کے باوجود، اپنی معتدل اور باہمی احترام کی فطرت کے باعث، ہر طبقہ فکر میں عزت و تکریم پائی جاتی ہے۔ ان کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی چودھری برادران کی طرف سے پیشکش ہوئی تھی کہ دارالعلوم کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا بل منظور کراتے ہیں۔ لیکن پیر صاحب نے اپنا حق ہونے کے باوجود، ایک عظیم مقصد کو زیر احسان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 2013 میں مسلم لیگ کی حکومت میں پیرصاحب کابینہ کے رکن تھے ،لیکن اپنی حکومت میں بھی دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کو یونیورسٹی چارٹر کرانا بھی انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔ اور اب، جب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو پیر صاحب نے جامعہ الکرم کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کروایا۔ کیوں کہ معاملہ خالص میرٹ کا تھا اور یہ حضور ضیاالامت کا فیض تھا کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی الکرم یونیورسٹی کا بل منظور کرانے میں سعادت سمجھی۔ اور شاید یہ پہلا قانونی بل تھا، جس کی کسی رکن نے مخالفت نہیں کی اور متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے مزید پارلیمانی و قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے متعلقہ مجلس قائمہ کو بھیج دیا۔ اور پھر 13 اگست کو وزارت تعلیم کی مجلس قائمہ نے ایک بار پھر متفقہ طور پر منظور کر دیا۔ بلکہ کٸی ارکان نے اس سعادت کا حصہ بننے کے لیے خصوصی طور پر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔ اب یہ بل سینٹ میں جائے گا ۔یقین ہے کہ قومی اسمبلی سے زیادہ جوش اور جذبے سے یہ بل منظور ہو گا۔ اگرچہ اس بل کی منظوری اور چارٹر کرانے میں کئی ارکان قومی اسمبلی نے ذاتی دلچسپی لی اور اس عظیم مقصد کے لیے اپنا حصہ ڈالا، یقیناً ان کے لئے قیامت تک صدقہ جاریہ رہے گا ۔پارلیمنٹ تک تو یہ کام بہت آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے، لیکن اب حضور ضیاالامت کے فیض یافتہ تلامزہ اور روحانی متعلقین کی ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد، دارالعلوم کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی قانونی ضروریات پوری کرنے میں حضور پیر امین الحسنات شاہ صاحب کے معاون بنیں۔ بلاشبہ یہ سب کے لیے خوشی و مسرت کا موقع ہے اور مبارک سلامت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ الکرم یونیورسٹی کوئی کاروباری ادارہ نہیں ہوگا، بلکہ ایک عظیم شخصیت کے عظیم مشن کی طرف ایک قدم ہے۔ اور اس لئے حضور ضیاالامت سے فیض حاصل کرنے والوں کے فرائض میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اور یہ بات طے ہے کہ اس جامعہ نے قیامت تک نہ صرف چلنا ہے، بلکہ خاص علوم کے لیے امتیازی شناخت بھی بننا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں