بے روزگاری اور کرونا وائرس

Spread the love

(تحریر سید عمیر)

بے روزگاری کا ٹھیکیدار سیکڑوں مزدور، جن میں خواتین بھی شامل تھی، مزدوروں کے عالمی دن سے صرف ایک ہفتہ قبل ان کی جبری چھٹی کے خلاف احتجاج کرنے کیليےپاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی کے مشرقی ضلع میں جمع ہوئے۔در حقیقت ، وہ اپنی تنخواہیں وصول کرنے آئے تھے لیکن انہیں آگاہ کیا گیا کہ فیکٹری کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان بتایا گیا۔یہ پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مختلف مزدور یونینوں کے مشترکہ قومی لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی نے بھی اس کا اعتراف کرتے ہوے کہا “مزدوروں، خصوصا روزانہ تنخواہ داروں اور کنٹریکٹ ملازمین کو بغیر کسی اطلاع کے چھوڑا جارہا ہے۔”وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس وبائیی مرض کی آڑ میں مزدوروں کو برطف نا کرنے کی گزارش کے باوجود مزدوروں کو دوران ملازمت بڑے پیمانے پر خارج کیا گیا۔اس دوران حکومت نے حال ہی میں ایسی نجی کمپنیوں کے لئے مراعات کا بھی اعلان کیا تھا جو جاری معاشی سست روی کے سبب اپنے ملازمین کو برطرف نہیں کریں گی۔ اسکے باوجود، لیبر یونینوں کے مطابق ، ملک میں پچھلے دو ماہ میں ہزاروں مزدوروں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے ایک تو بےروزکاری نے پہلے ہی ہمارے ملک میں گھر کیا ہوا تھا، اور اب تو خیر اللہ ہی حافظ ہیے۔جتنی جلدی ان کمپنیوں نے اپنے مزدوروں کو برطرف کیا تھا اب یہ ہی مزدور اگر لاک ڈاؤن کے بعد اپنی نوکری کے لیے واپس جایۂں گے تو وہ شاید پہچاننے سے بھی انکار کر دیں۔
اس کے علاوہ ،حکومت نے کورونا وائرس کے بحران سے متاثرہ 12 ملین خاندانوں کو ہر ایک 12،000 پاکستانی روپے کی مالی امداد فراہم کرنے کے لئے احسان ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا تھا،جس کا کچھ عرصہ تو کافی شور مچا تھا مگر اسکے بعد کہیں کچھ سناۂی نہیں دیا۔خیر، ویسے بھی آج کے اس دور میں جہاں 50000 میں گزارہ کرنا مشکل ہے وہاں 12000 کیا کر سکتا ہیے۔گیلپ کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 17.3 ملین افراد اس وائرس کی وجہ سے اپنی ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں سروے کے مطابق ، پاکستان میں 61.7 ملین ملازمت والے افراد ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری کے خطرے سے دوچار افراد کی کل تعداد کا 28 فیصد ہے۔ لہذا ، پاکستان میں 17.3 ملین افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ سروے کے مطابق ، اگر حکومت لاک ڈاؤن نافذ کرتی رہی تو 40 فیصد ملازمتیں درمیانی خطرہ میں ہوں گی۔ پنجاب اور سندھ میں بالترتیب 24 فیصد اور 37 فیصد افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔علاوہ ازیں، پاکستان بے روزگار تعلیم یافتہ افراد خصوصا بے روزگار گریجویٹس کے رجحان کا سامنا کر رہا ہے۔ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ ہیے۔ نوکری دینے کے لیے اونرز تجربہ مانگتے ہیں لیکن تجربہ دینے کے لیے کوۂی تیار نہیں۔ اگر سب یوں ہی چلتا رہا تو جلد ایک نیا پاکستان بنے گا، جس میں ہر طرف بے روزگاری، غربت اور خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں