
بشارت بشیر کھوکھر:اللہ کریم کا مجھ پر بہت ہی کرم ہے مگر آج اپنی بے ثباتی اور بے بسی کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔ جن ماں جی کی دعاؤں کا صدقہ اور ان کے قدموں کی برکت سے اللہ نے مجھ ناچیز کو اتنی عزت سے نوازا ہے اپنے وطن عزیز کا ایک نہاٸیت اعلی ایوارڈ ”نشان امتیاز“ کے لٸے نامزد کیا گیا ہے۔ جو آٸندہ سال یوم پاکستان کے موقع پر صدر مملکت عطا کرینگے، انسانیت کی خدمت پر یہ اعزاز میرے لٸے دنیای سے زیادہ آخرت کے لٸے سند ہے کہ یہ میری حقیر کوششوں کا اعتراف اور گواہی ہے، لیکن آج اپنی پیاری ماں جی کی کمی زیادہ شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں کا سفر نہ کیا ہو، ماں جی کی تربیت کے طفیل خدمت خلق کرنے کی شناخت نے ہر جگہ میرے راستے ہموار کیے ہیں، حتی کہ فلسطین اور القدس شریف میں جانے اور وہاں خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مگر ابھی یہ دکھ اور غم بھی تازہ تھا کہ اپنی سب سے بڑی دولت اور دین و دنیا کا سہارا، ماں جی کے سفر آخرت میں شرکت بھی نصیب نہیں ہوٸی، لیکن اللہ کی بے نیازی کا یہ نظارہ بھی دیکھا اور اپنے رب کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کیا اور اس بات پر ایمان مزید پختہ ہو گیا کہ انسان ہر حال میں محتاج ہے بس یہی ایک ذات ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ساب ایک ایسا خوشی اور مسرت کا لمحہ ہے کہ میرا خاندان، میرا مرشد خانہ، میرے روحانی اور علمی رفقا، میری تنظیم مسلم ہینڈز کے ساتھی اور معاون رضاکار اور علماأکرام، مشاٸخ عظام، صحافت سے وابستہ احباب اور دیگر بہی خواہ مبارک باد دے رہے ہیں، اعزازی تقریبات منعقد کر رہے ہیں، لیکن جو ذات اس سب مسرتوں کا موجب ہے، وہ موجود نہیں۔ میں جب بھی وطن آتا تو ماں جی کی قدم بوسی سے مشرف ہوتا، جو میرے لٸے مزید بلندیوں کا ذریعہ بنتا۔مگر آج اگر وہ مبارک قدم میسر نہیں، جن پر ہر اعزاز قربان ہے۔
ماں جی کی ہمارے لئے کیا اہمیت تھی، اس کا احاطہ الفاظ میں ممکن ہی نہیں۔ ماں جی نے جن حالات میں ہماری پرورش و تربیت کی وہ غیر معمولی تھے۔ نصف صدی قبل ہمارے والد محترم سید بشیر احمد خورشید رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو ہم چھوٹے تھے۔ والد صاحب سلسلہ سہروردیہ کے پیشوا اور صاحب سجادہ تھے ۔آپ درویشی اور توکل علی اللہ پر قناعت کرنے کی مجسم تصویر تھے۔ آپ کی وفات کے بعد ہماری ماں جی پر ذمہ داریوں کا پہاڑ آن گرا تھا۔ اس وقت وسائل تھے نہ سہولیات، اور ایک سادات گھرانے اور روحانی آستانے سے وابستہ توقعات کا بوجھ۔ مگر ماں جی نے کمال حوصلے اور صبر کے ساتھ، پردے میں رہتے ہوئے اپنے خاندان اور آستانے سے وابستہ افراد کی پرورش و تربیت کی ذمہ داری پوری کی ۔ ہمیں ہمیشہ یہی سب ذہن نشین کیا کہ ہمارا خاندان سخاوت کا استعارا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ،گھر آنے والے ساٸل اور مہمان کی خدمت کرنی ہے۔ ہم نے ماں جی کو دیکھا کہ آستانے پر جب بھی کوئی عقیدتمند آیا، دن ہو یا رات، اس کے لیے کھانا تیار کیا ۔والد صاحب کے مریدین اکثر آتے رہتے، جو ہمارے بڑے بھائی اور والد صاحب کے سجادہ نشین سید صفی اعظم چن پیر سے ملتے اور دعا کراتے۔ ان کو کسی صورت بھی بغیر کھانا کھائے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اور یہ ماں جی کی ہدایت تھی۔ شاید یہی وہ تربیت کا عملی نمونہ بھی تھا، جس نے میری زندگی میں آگے چل کر بہت رہنمائی کی۔ میرے ساتھ ماں جی کے تعلقات دیگر بھاٸیوں سے مختلف نوعیت کے تھے ۔ مجھ پر ماں جی نے یہ خاص مہربانی فرمائی کہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت کے مجدد حضرت پیر کرم شاہ صاحب الازہری سے درس و فیض حاصل کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے نے بظاہر مجھے ماں جی سے دور کردیا، مگر ان کی دعائیں میرے شامل حال رہیں اور اس فیصلے نے میری زندگی کی نئی راہ متعین کر دی۔ اس کے بعد ماں جی اور برادر بزرگ سید صفی اعظم کا مجھ پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے مجھے حضرت ضیاء الامت کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کی اجازت بھی دی۔ ماں جی نے مجھے بھیرہ شریف کے لئے رخصت کیا تو یہ دراصل میرے لیے دنیا کا دروازہ کھولنے کے مترادف ثابت ہوا۔ دینی تعلیم کے بعد پیر صاحب کی ہدایت پر برطانیہ آگیا اور یہاں پر ماں جی کی دعاؤں اور پیر صاحب کی سرپرستی میں مسلم ہینڈز کی بنیاد رکھی۔ جو آج خدمت خلق کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک پہچان ہے اور 55 ممالک میں اپنے مربوط نیٹ ورک کے ذریعے انسانیت کی خدمت میں سرگرم ہے۔ یہ خدمت ہیں میری عزت کا باعث ہے اور یہ سب ماں جی کی تربیت اور نظرکرم کا نتیجہ ہے۔ مجھے اپنی فلاحی سرگرمیوں اور دنیا بھر میں سفر کے باعث ماں جی کی خدمت کا بہت کم موقع ملا، مگر ان مصروفیات پر ماں جی خوش بھی ہوتیں اور میرے لئے دعائیں بھی فرماتیں ان کی خوشنودی ہی میرے لیے ہر لمحہ ترقی اور عزت میں اضافہ کا باعث رہیں ۔مجھے یقین ہے کہ ماں جی اس ظاہری غیر موجودگی کے باوجود اپنی نظر کرم سے محروم نہیں کرینگی اور اگلے جہان سے ہماری رہنمائی اور دستگیری فرماتی رہیں گی۔ ہماری انسانیت کی خدمت اور تمام مساعی بلاشبہ ماں جی کی تربیت اور ہدایت کی مرہون منت ہیں۔ اور یہ تمام اعزازات ماں جی کے لئے بھی روحانی مسرت کا سبب اور صدقہ جاریہ ہیں۔ یہ موقع میرے لئے مسرت و فرحت کے ساتھ ماں جی سے ظاہری جداٸی کے دکھ کا ھی ہے مگر، انشاءاللہ نئے جوش اور جزبے کے ساتھ اپنے کام اور مشن کو آگے بڑھائیں گے کہ یہی ماں جی کے لٸے توشہ آخرت اور اس سے ہی ماں جی کی روح کو خوشی ملے گی