تحریر و تحقیق۔ چوہدری زاہد حیات۔
مراقبہ کے تین مراحل ہیں:
۱۔ ذکر
۲۔ فیض
۳۔ استغراق
۱) مراقبہ کہتے ہیں اللہ کی رحمت اور فیض کے انتظار میں بیٹھنا۔ جب آپ مراقبہ کرتے ہیں انتظار فیض کرتے ہیں تو آپ کو تصور کے ساتھ اپنے لطائف کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے اور اللہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ جس سے وہ لطائف جو پہلے ہی چل رہے ہوتے ہیں مزید تیز ہو جاتے ہیں یا محسوس ہو جاتے ہیں۔
۲) جب آپ کو فیض/توجہ ملنے لگتی ہے تو آپ کو لطائف متوجہ ہو کر تیزہو کر اس فیض کو ریسیو کرنے لگتے ہیں جیسے لطائف کو گرپ میں لے کر تیز کردیا گیا ہو۔ اس فیض/توجہ کے حصول کے ساتھ ہی آپ کے لطائف رسپانس دینے لگتے ہیں اور ٹھنڈک، حدت، خوشبو وغیرہ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اسی حد تک ذکر مراقبہ کا حکم ہے۔ان دو کیفیات کے ساتھ آپ تصور میں اپنے آپ کو ڈوبتا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ تصور میں کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اپ حجراسود کے بوسے دے رہا ہوں یا روضہ رسول کے ساتھ ہوں۔
۳) مندرجہ بالا دو کیفیات ذکر و فیض کے بعد اچانک آپ کا ذہن ایک خاص لمحہ میں بالکل خیالات سے پاک ہو کر خالی/blank ہو جاتا ہے اور آپ استغراق کی حالت میں یا مشاھدہ میں چلے جاتے ہیں یا نیند کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
یاد رکھیں لطائف آپ کے اندر ہیں ان کو آپ کی توجہ ہی سے چلنا ہے، جب کہ فیض خارج سے /باہر سے آنا ہے جو آپ کی چاہت طلب اور مانگنے اور تصور پر منحصر ہے۔اصل مطلوب ذکر و فیض ہے۔
سورہ ق میں بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْب’‘ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْد’‘ (سورہ ق:37)
ترجمہ:بیشک اس میں انتباہ اور تذکر ہے اس شخص کے لیے جو صاحب دل ہے(یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)یا کان لگا کر سنتا ہے (یعنی توجہ کویک سو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے) اور وہ (باطنی) مشاہدہ میں ہے (یعنی حسن و جمال الوہیت کی تجلیات میں گم رہتا ہے)۔
مراقبہ کا مقصد عین الیقین اور حق الیقین حاصل کرنا ہے۔ قران کریم اس علم کے ادراک کو بیدار کرنے کے لئے جو مختصر اور جامع طریقہ بتاتا ہے اس کے تین اجزاء ہیں:
۱۔ وہ اس علم کی چاہت طلب والا دل تو رکھے۔روحانی مشاھدوں کا شوقین اور اس کی فہم کا طالب صادق تو ہو۔اللہ اور اس کے حبیب کی محبت کی طلب اس کے دل کے گوشے میں کہیں موجود تو ہو۔محض یکسر مسترد کر دینے والا نہ ہو جو بغیر ثبوت حاصل کئے اور ان کی تگ دو کئے بغیر انکاری نہ ہو
۲۔ دل /سینہ کی طرف پورے کان/ توجہ لگا دے ہمہ تن گوش رہے
۳۔ذہن کو مرتکز کرے، یعنی ذہنی طور پر حاضر رہے۔ذہن ادھر ادھر اس ارتکاز کے دوران بھٹکتا نہ پھرے بلکہ دل /سینہ پر القاء ہونے والی کیفیت کو رسیو کرے اور ان کی قلبی انٹر پٹیشن قبول کرے۔