تاریخ کا تاریخی سبق

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
سلطنت روما کا بادشاہ جولیس سیزر تاریخ کا ایک بڑا نام ہے۔ کہتے ہیں وہ جب بھی کوئی ملکی پالیسی اختیار کرنا چاہتا، کوئی معاشی انقلاب لانے کا خیال دل میں لاتا یا کوئی خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتا تو اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کرتا اور اپنے خیالات کابینہ کے سامنے رکھ دیتا۔ کابینہ پورے خلوص اور نیک نیتی سے اس پر غور و خوض کرتی۔ اگر تو وہ منصوبہ یا پالیسی مضمرات سے پاک ہوتی تو کابینہ اپنی منظوری دے دیتی اور سیزر اس پر عمل درآمد کرنے کے احکامات صاردر فرمادیتا۔ اور اگر کابینہ یہ خیال کرتی کہ یہ ایک ناقص منصوبہ ہے تو صاف دلی سے کہہ دیتی “you may be wrong Ceaser” اور سیزر سمجھ جاتا کہ یہ منصوبہ اس کی حکومت اور عوام کے لئے نقصان دہ ہے اور وہ اسے ترک کردیتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی کامیابی کا راز مشاورت میں مضمر ہے۔

سیزر کے اس کے دور میں سلطنت روما کی حدیں وسیع ہوتی گئیں، ملک خوشحالی کے راستے پر گامزن رہا اور ملکی خزانہ بھرا ہونے کے باعث عوام خوشی کے ترانے گاتے اور اور چین کی نیند سوتے رہے۔ لیکن بادشاہوں کو بادشاہ بنانے میں ان کے مشیروں کا بہت بڑا ہاتھ حصہ ہوتا ہے۔ سیزر کو بھی بلا آخر ان خوش امدی مشیروں نے گھیر لیا۔اور سیزر کو احساس دلایا کہ وہ آخر بادشاہ ہے اور بادشاہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ لہذا سیزر کو چاہیئے کہ اپنے فیصلے خود کرے ۔ یہ کابینہ لوگوں اور مشاورت وغیرہ کے چکر میں نا پڑھے اپنے فیصلے خود کرے۔ چنانچہ وہی سیزر جو کابینہ کے صرف اتنا کہہ دینے پر اپنے منصوبے ترک کردیتا تھا کہ ”باشادہ سلامت ، آپ غلطی پر ہوسکتے ہیں“اب وہی سیزر مطلق العنان بادشاہ بن گیا، اپنی مرضی کے فیصلے کرنے لگا اور اس کے مشیر اسے’ سب اچھا ہے‘ کہ میٹھی گولی کھلاتے رہے جبکہ حقیقت میں عوام میں بے چینی بڑھنے لگی تھی اور امن و امان ناپید ہوگیا تھا۔ آخرکار سیزر کے اپنے بہت ہی قریبی اور انتہائی بااعتماد مشیر بروٹس نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔ بروٹس کا یہ فعل سیزر کے لئے اتنا غیر متوقع تھا کہ مرتے وقت اس کی حیرت زدہ زبان سے تاریخ کا حصہ بن جانے والے صرف یہ الفاظ نکل سکے : “?You too Brutus”

حکومتوں کا یہی المیہ ہوتا ہے۔ اور یہی ان کے عروج و زوال کے اسباب ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی حکمران اپنے خوشامدی مشیروں کے نرغے میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو مطلق العنان بادشاہ اور عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ تاریخ سے کبھی کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہر حکومت یہی سمجھتی ہے کہ ملک میں سب اچھا ہے، اور فی الحال اس کی حکومت مستحکم ہے۔ کیونکہ جو خود غرض مشیر بادشاہ کو بادشاہ بناتے ہیں وہ اسے سب اچھا کا یقین دلا کر اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتے یہ تاریخ کا سبق ہے جو وہ سالوں سے دی رہی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں