رخت سفر/بشارت کھوکھر
اس وقت چند عرب ریاستوں کو چھوڑ کر، تمام دنیا میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے. مقررہ وقت پر الیکشن ہوتے ہیں. ہارنے والی پارٹی نتائج قبول کر کے جیتنے والوں کو حکومت بنانے کا موقع دیتی ہے.انتخابی ہار جیت کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنایا جاتا. حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے اور کارکردگی دیکھ کر عوام ہی اس کو دوبارہ موقع دینے کا فیصلہ کرتی ہے. مگر پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا اندازِ سیاست سب سے الگ ہے. یہاں کوئی بھی ہارنے کے لیے الیکشن نہیں لڑ تا اور نہ ہی ہار کو قبول کرتا ہے. ایک حلقے کے امیدوار سے لے کر پارٹی سربراہ تک ہر کوئی ہار کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور پھر متنازعہ جیت کے ذریعے بننے والی حکومت کے خلاف پہلے دن سے ہی تحریک شروع ہوجاتی ہے. اگرچہ مروجہ جمہوری نظام میں جیتنے والی پارٹی بھی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی. عام طور پر 100 میں سے 30 نشستیں جیتنے والی پارٹی حکومت بنا لیتی ہے، جبکہ 70 نشستیں مختلف 4,5 پارٹیاں الگ الگ حاصل کرتی ہیں. اس لیے وہ اپوزیشن میں رہ جاتی ہیں. ان میں ذاتی اختلاف اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش سے اتحاد نہیں ہو پاتا اور حکومت اقلیت ہو کر بھی حکمرانی کرتی ہے. موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ اس کی ایک مثال ہے. دنیا میں سب سے مثالی جمہوریت امریکا میں رائج ہے. وہاں دو پارٹی سسٹم ہے، اس لیے جیتنے والا ہی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے. وہاں حکومت کا سربراہ صدر کہلاتا ہے جو براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے. جو امیدوار ایک بار صدارتی الیکشن ہار جائے وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑ سکتا اور کوئی بھی امیدوار صرف دو بار ہی صدر رہ سکتا ہے، تیسری بار الیکشن نہیں لڑ سکتا. چار سال بعد باقاعدگی سے نومبر کے پہلے سوموار کو الیکشن ہوتے ہیں اور اگلے سال جنوری میں نیا صدر حلف اٹھاتا ہے. اگر کوئی انتخابی تنازع پیدا ہو تو عدالت فیصلہ کرتی ہے، جو دونوں فریق بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کر لیتے ہیں. یہ سال امریکہ میں انتخابات کا سال ہے اور آنے والے نومبر کی 2 تاریخ کو پولنگ ہوگی ۔اس وقت موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں سابق نائب صدر جوبائیڈن صدارتی امیدوار ہیں اور انتخابی سروے کے مطابق جوبائیڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے. یہ بات صدر ٹرمپ کو بھی معلوم ہے ،اسی لئے ان کا لہجہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جارحانہ ہوتا جارہا ہے. اور اب تو انہوں نے پاکستانی سیاست دانوں کا انداز اختیار کرلیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ ان کے خلاف دھاندلی کا منصوبہ بن رہا ہے اور اگر وہ ہارے تو یہ دھاندلی ہو گی. صدر ٹرمپ نے انتقال اقتدار کو بھی مشکل بنانے کا اعلان کردیا ہے. اگرچہ اس رویہ پر سنجیدہ امریکی ٹرمپ کے خلاف ہو رہے ہیں. بلکہ ٹرمپ کے چار سالہ دور کو امریکی تاریخ کا بد ترین دور کہاجا رہا ہے. لیکن جب تک ٹرمپ صدر ہیں ان کا حکم چلتا رہے گا. چند ماہ قبل امریکی سینیٹ کی جانب سے فوجی کمانڈر ان چیف سے پوچھا گیا تھا کہ انتخابات میں کسی تنازعے میں فوج کیا کر سکتی ہے، اس کی طرف سے جواب دیا گیا تھا کہ انتخابات میں یا اس کے بعد کسی بھی تنازع کی صورت میں فوج کا کوئی کردار نہیں بلکہ سپریم عدالت ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے. البتہ فسادات کی صورت میں حکومت کے طلب کرنے پر فوج آسکتی ہے. اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سینیٹ سمیت اعلی ریاستی اداروں کو بھی ٹرمپ کی طرف سے خدشات ہیں. امریکی جو بھی سمجھیں، ہمارے لیے اس صورت میں خوشی اور سکون کی کئی چیزیں ہیں. صدر ٹرمپ کا دور ہمارے لیے عمومی طور پر اتنا برا نہیں رہا، شروع دنوں میں بھارت کی آواز میں دھمکیاں ملتی رہیں، مگر افغانستان کے معاملے سے جان چھڑانے کے فیصلے نے ٹرمپ کی پاکستان بارے سوچ تبدیل کر دی. ہمارے لیے یہ بھی کافی ہے کہ ٹرمپ کے دور میں ڈرون حملے نہیں ہوئے۔ بہرحال یہ بہت دلچسپ صورتحال ہو گی اگر صدر ٹرمپ انتخابی نتائج کو قبول کرنے اور اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیں گے اور دھاندلی کے شور میں امریکہ دب جائے گا. امریکیوں کو بھی “اصلی” جمہوریت کا مزہ آنا چاہیے اب تک صرف ہم ہی اس سے متاثر ہیں