“اسلام میں خدمت خلق کا تصور اور اسکی اہمیت”

Spread the love

تحریر-(محمد علی جوہری)

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ چین کے ووہان شہر سے نمودار ہونے والا کرونا وائرس وہاں کی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گیا ہے جسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے جان لیوا عالمی وباء کووڈ -انیس (covid-19) نے نامعلوم طریقے سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہوئے عرب، عجم سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جسکی وجہ سے دنیا کا چھوٹا بڑا ملک اپنی آبادیوں کو گھروں میں مقید کرنے پر مجبور ہوگیا ہے اور انسان گویا ایک طرح کی قید تنہائی میں ہے ، بقول شاعر:
قید تنہائی ہے اور محرومیوں کی زندگی اب نہ گلیوں اور محلوں میں آوارگی اس عالمی وباءنے جہاں ایک طرف ہر انسان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور انسانی عقل حیرتوں کے سمندرمیں ڈوب گئی ہے، وہی دوسری طرف بے شمار معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی وتمدنی مسائل کو بھی جنم دیا ہے جسکے نتیجے میں نت نئے مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ اس وقت اس عالمی وباء کی وجہ سے چاروں طرف خوف اور ہراس کا عالم ہے، ڈر اور خوف کا ماحول ہر انسان پر اس طرح طاری ہے کہ وہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگا ہے، ہر سو نفسا نفسی کا عالم ہے ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے، کوئی کسی سے ملتا نہیں، کوئی کسی سے بغلگیر نہیں ہوتا، ہر شخص کو اپنے سامنے موجود فرد مشکوک نظر آرہا ہے۔ہے خائف اب انسان انسان سے
لرزتا ہے ہر کوئی مہمان سے
دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بے بسی اور کمزوری کی حقیقت سرِ عام ظاہر ہورہی ہے اور وہ اپنے تمام تر وسائل، بے پناہ سرمایہ، سائنسی علم کے تمام خزانوں کے باوجود ہاتھ ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس وقت مغربی ملکوں کی مثال پکّے ہوئے پھل کی مانند ہوچکی ہے، جو کسی وقت بھی گرنے والا ہے اور امریکہ جیسا ملک جو اپنے ایک فوجی کے مرنے پر ملکوں کو تاراج کرتا تھا اس کے ہاں لاشوں کے انبار لگ گئے ہیں۔
سر غرور و ناز کا نیچا کئے سارا جہاں
محو ماتم ہر طرف ہر لب پہ آہ و فغاں
وہ لوگ جو ہر بات کو سائنس کے ترازو میں تولتے تھے، آج ان کے چہروں پر مایوسی چھائی ہوئی ہے کیونکہ میڈیکل سائنس اپنی تمام تر کرامتوں کے باوجود اس وائرس کے سامنے لاچار ہوگئی ہے، اور ہر انسان اس قیامت خیز منظر کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ایسے عالم میں اگر ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیں تو ہمارے معاشرے میں زندگی گزارنے والے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے جس میں غریبوں، یتیموں، بیوائوں، مساکین اور حاجت مندوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو پہلے ہی کافی حد تک زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھے، اور اس ناگہانی عالمی وباء (کورونا وائرس) کی آفت سے اب پہلے سے زیادہ اثاثہ جات زندگی سے محروم ہورہے ہیں اور زندگی کے تار و پود بکھر نے کے سبب وہ بہت سے مصائب اور الجھنوں میں گرفتار ہوئے ہیں اور انکی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور وہ دو وقت کی روٹی کیلئے دوسروں کی مدد اور تعاون کے محتاج ہو رہے ہیں، شاعر کے بقول :
بے بسی اور بے کسی اور محرومیاں بھی بڑھ گئی
گم ہوئی نزدیکیاں اور دوریاں بھی بڑھ گئی چنانچہ ایسی صورت حال میں انکی مدد کرنا اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنا ہرباضمیر انسان کا فرض ہے اور دین مبین اسلام نے اسے انسانی فطرت کا حصہ اور خاصہ قرار دیا ہے،اور خدمت خلق کے تحت معاشرے کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے اسکیمیں وضع کرتے ہوئے مستحق افراد کی مدد کرنےکو بہترین عبادت قرار دینے کے ساتھ اسے ہر مسلمان کا وظیفہ قرار دیا ہے اور اس ذمہ داری سے جو بھی پہلو تہی کرتا ہے اسے “من اصبح ولم یہتم بامور المسلمین فلیس بمسلم” (معانی الاخبار،ص:89) کے ذریعے دائرہ اسلام سے خارج کردیا ہے۔اسلامی نکتہ نگاہ سے معاشرے کے کمزور اور نادار طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے کوشش کرنا حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے اور دین مبین اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے، یہ اپنے ماننے والوں سے جہاں حقوق اللہ کی ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے وہی حقوق العباد کی انجام دہی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ دین اسلام کی نورانی تعلیمات کی رو سے سماج میں زندگی گزارنے والے افراد کے درمیان ہمدردی اور باہمی محبت و خیر خواہی کا جذبہ معاشرے میں سیاسی استحکام، معاشرتی امن و سکون اور معاشی ترقی کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کا بہترین تصور پیش کرتے ہوئے باہمی ہمدردی و تعاون اور خیرخواہی کو اعلیٰ انسانی اقدار کا حصہ قرار دیا ہے۔اور انسانی اقدار پر مشتمل یہی تعلیمات ہر سچے مسلمان کو ایثار، قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف مالی تعاون ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور اس طرح کے دوسرے نیک امور بھی خدمت خلق کے زمرے میں آتے ہیں۔ علمائے اخلاق کے بقول: خدمت خلق اور فلاح انسانیت پر تمام الہی اور انسانی نظام ہاے فکر کی عمارت قائم ہے، خواہ اسکا تعلق سیاسی اخلاقیات سے ہوں یا پھر اقتصادی اخلاقیات سے، سماجی اخلاقیات سے ہو یا مذہبی اخلاقیات سے ان تمام کا تعلق انسانی سماج کی بہتری سے ہے، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں جس معاشرے میں انسان کی عظمت کا تصور ناپید ہو وہ حیوانی معاشرہ کہلاتا ہے۔
انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہیں، مال و دولت کی وسعتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اورایک دوسرے کے احتیاج کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون، ہمدردی، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت کا جزء لا ینفک ہے۔اور دین اسلام چونکہ ایک صالح اور پر امن معاشرے کی تشکیل کا علم بردار ہے، اسلئے اسلام نے ان افراد کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر سماج کے ضرورت مند اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں لئے ہوئے ان کے مسائل کے حل اور انکی راحت اور آسایش کیلئے اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔دین اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس نے خدمت خلق کے دائرہ کار کو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیاہے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام تحریر کرده اپنے مکتوب میں اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جہاں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیتے ہوئے ان سے بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر53)
بلا تردید اسلام کے انہی نورانی تعلیمات پر مبنی اصولوں سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی، باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں مرد مومن اپنے جذبات و احساسات کو دنیا کے دیگر لوگوں کے ساتھ مئوثر انداز میں پیش کرتے ہوئے ایثار و فداکاری کا مرقع بن کر دنیا کے سامنے اسلام اورایمان کی بہترین اور سچی تصویر پیش کرسکتا ہے اور اس کیلئے ہمارے سامنے سیرت اہل بیت علیہم السلام سمیت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے اعلی نمونے موجود ہیں جن کی ایثار اور فداکاری اور خدمت خلق کی تمجید اور تعریف میں آیتوں کی قطاریں نازل ہوتی ہیں جو اس ضمن میں قیامت تک آنے والی انسانیت کیلئے بہترین مثال ہے جس کو آج کے دور میں ہم بھی اپناکر ان برادرانِ وطن کی خدمت کرکے بہترین عبادت کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں جو کرونا وائرس جیسے عالمی وباء کی زد میں آکربے سہارا ہوگئے ہیں جن کے پاس کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں