تحریر- اکرام الدین
2024ءتو اب مہمان ہے اور 2025 ءکی آمد آمد ہے۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ ہمیں زندگی کا ایک برس کم ہونے کی خبر دیتا اور رخصت ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں میں بہتری، روشنی، کامیابی اور فروغ کے خواب سجائے اگلے سال کو خوش آمدید کہتے اور سوچتے ہیں کہ شاید یہی وہ سال ہے جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور امیدیں حقیقت کا روپ دھار لیں گی۔ یہ سوچنے کی یقینا ضرورت ہے کہ آنے والے نئے سال میں ہم کیا کریں گے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ لگانے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے گزرنے والے سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ہم نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کسی غریب کی مدد کی،حقوق العباد کا خیال رکھا، عبادت میں کوتاہی تو نہیں کی، کسی کا دِل تو نہیں دکھایا، ماں باپ کی خدمت کی، اپنوں کا خیال رکھا، صلہ رحمی کیا؟ پروردگارِ عالم نے ہمیں جو نعمتیں عطاءکی ہیں، اُن میں سے حق داروں کا حصہ نکالائے سال کی آمد جشن کا منانا قدیم روایت ہے۔ رات 12 بجے کا وقت ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کا استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے،اِس لئے خوشی منانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ ہلڑ بازی، آتش بازی اور فائرنگ کا موقع نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِس دنیا میں جس امتحان کے لئے بھیجا ہے، نئے سال کے شروع ہونے کا مطلب ہے کہ اُس وقت میں مزید کچھ کمی واقع ہو گئی ہے۔ سال کے آغاز میں ہم نے خود سے جو پیمان باندھے ہوتے ہیں اور یہ پروگرام بنائے ہوتے ہیں کہ یہ کروں گا، وہ کروں گا، سال کے اختتام پر جب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں ہوا جس کا سوچا تھا تو خاصی ناخوش گواری محسوس ہوتی ہے۔ انسان اگر حساس ہو، ذی شعور ہو تو ایسا ہونا قدرتی امر ہے۔ میرے خیال میں اگر کچھ ناخوش گوار ہوا ہے تو اُس پر دِل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت سی چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوتی ہیں، ہم سوچتے اور کرتے کچھ ہیں لیکن عملاً کچھ اور ہو جاتا ہے لہٰذا یہ سوچنا چاہئے کہ جو کچھ ہوا اُسی میں ہمارے لئے بہتری تھی اور ناکامیوں کا از سر نو جائزہ لے کر اور یہ سوچ کر کمر پھر سے کس لینی چاہئے کہ آنے والے برس میں اُن کمیوں اور خامیوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو گزرنے والے سال میں ہو گئیں۔ گزرے 365 دِنوں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے کہ کن جگہوں پر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی اور کہاں ہم نے کوئی غفلت کی۔اگر ہم گزرے سال کی کارگزاری کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی آئندہ کی حکمت عملی بنائیں گے تو یہ یقینا ہمارے لیے مفید ثابت ہو گی۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم نئے سال کا آغاز شور شرابے اور فائرنگ کی بجائے سنجیدہ غور و فکر سے کریں۔اِس سال کے آخری دن یہ سوچیں کہ چند ساعتوں میں جو سال ختم ہونے والا ہے اُس میں ہم نے کون سا اچھا اور اپنی اور دوسروں کی بھلائی والا کام کیا اور ہمارے کس کام سے ہمارا یا دوسروں کا نقصان ہوا۔ وہ کون سے لمحے تھے جو ہم نے نسل انسانی کی بہتری کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارے۔ کتنا کچھ سیکھا اور کیا کچھ گنوا دیا۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا سب سے بڑا تعلق اپنے رب سے ہے۔ہم یہ سوچیں کہ اللہ کے احکامات کس قدر پورے کر پائے۔ ہم اُس کے قریب آئے یا اُس سے مزید دور چلے گئے کیوں نہ ہم نئے سال کا آغاز اِس سوچ کے ساتھ کریں کہ اگلے سال اِس تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اِس کے بعد انسان کا سب سے بڑا رشتہ اپنے آپ سے ہوتا ہے۔ نئے سال کے آغاز پر ہم اِس پر غور کریں کہ ہم نے اپنی ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی صحت پر کتنی محنت کی، اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کا کتنا خیال رکھا۔ ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں کے ساتھ کتنا وقت گزارا۔اُن تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے بالقصد کتنی کوشش کی۔اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ وقت کبھی نہیں رُکتا، اِس کا پہیہ ہر دم رواں رہتا ہے۔ یہ لوگ،حالات اور چیزیں ہیں جو آتی اور جاتی ہیں، وقت اپنی دھیمی رفتار سے چلتا ہی رہتا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو پھر شام بھی ہونی ہی ہوتی ہے اور اگر رات ہو جائے تو صبح کا سوج بھی ہر صورت میں طلوع ہوتا ہے۔ قدرت کا نظام یہی ہے کہ جو آیا ہے اُسے جانا ہی ہے چاہے وہ انسان ہو یا وقت۔۔۔ اور کیا اِس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح وقت اپنی رفتار سے گزرتا چلا جا رہا ہے اُس کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے اُس کے دن اور سال بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ اپنا محاسبہ کرنے کی بجائے ہم خوشیاں مناتے ہےں۔ کس بات کا جشن؟ کیا ہماری زندگیوں میں ایک سال کم نہیں ہو گیا ہے۔آئیے عزم کریں کہ ہم اپنی ہر طرح کی ذمہ داریاں مکمل ایمان داری سے پوری کریں گے، اچھا مسلمان اور اچھا شہری بننے کی کوشش کریں گے، اپنی ذات سے، باتوں میں یا عمل کے ذریعے، کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے،اپنی اور اپنے ملک کی حالت بدلنے کی کوشش کریں گے اور اِس حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ پروردگار عالم سے دعا ہے کہ آنے والا سال پورے بنی نوع انسان کے لئے امن، سلامتی، بھائی چارے اور باہمی ہم آہنگی کا پیغام لائے اور نیا سال وباءسے نجات، مالی مسائل سے نکلنے اور عالمی سطح پر خوش حالی کا سبب بنے، آمین۔
سرفراز زاہد نے کیا خوب کہا ہے:
سال گزر جاتا ہے سارا
اور کلینڈر رہ جاتا ہے
آئیے کوشش کریں کہ اگلا سال جب اختتام پذیر ہو تو صرف کیلنڈر باقی نہ رہ جائے بلکہ یہ سوچ کر ہمیں خوشی ہو رہی ہو کہ ہم نے وقت کا بہترین استعمال کیا اور کامیاب ٹھہرے۔
