چودھری الطاف شاھد سدھو
پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ایک عرصے سے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے حالانکہ یہ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور پانی کی طلب فراہمی سے کہیں زیادہ ہے۔ سندھ پر ایک دہائی سے زیادہ حکمرانی کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اس بحران کا کوئی دیرپا حل نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کئی بار مرکزی حکومت کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کر چکی ہے۔ کراچی کے پانی کے مسئلے کا ایک موثر حل سمندری پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کے لیے ایک بڑے پیمانے پر ڈی سیلینیشن پلانٹ قائم کرنا ہو سکتا ہے۔
کراچی کو روزانہ تقریباً 1.1 بلین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن اس وقت شہر کو نصف سے بھی کم پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پانی کی کمی کے اہم عوامل میں ناقص انتظام، پرانی اور خراب انفراسٹرکچر، غیر قانونی کنکشن، اور دریائے سندھ اور حب ڈیم جیسے ناکافی ذرائع پر انحصار شامل ہیں۔ ان حالات نے شہریوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے، جنہیں یا تو مہنگے ٹینکر پانی خریدنا پڑتا ہے یا کمیونٹی پوائنٹس پر لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
ڈی سیلینیشن، یعنی سمندری پانی سے نمک اور دیگر آلودگیوں کو ہٹا کر اسے پینے کے قابل بنانے کا عمل، دنیا کے کئی خشک اور پانی کی قلت والے ممالک میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسرائیل، اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے پانی کے مسائل کو بڑی حد تک حل کیا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل میں “سوریک ڈی سیلینیشن پلانٹ” ملک کی 20 فیصد پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے، جبکہ دبئی اپنی 98 فیصد پینے کے پانی کی ضروریات کے لیے ڈی سیلینیشن پر انحصار کرتا ہے۔
کراچی میں ایک جدید ڈی سیلینیشن پلانٹ کا قیام نہ صرف پانی کی قلت کا مستقل حل فراہم کر سکتا ہے بلکہ شہر کی معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ ایک منصوبے کی لاگت تقریباً 1.5 سے 2 بلین ڈالر ہوگی، جو روزانہ 500 ملین گیلن پانی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پلانٹ ریورس اوسموسس (RO) ٹیکنالوجی پر مبنی ہو سکتا ہے، جو نمک اور آلودگی ہٹانے میں موثر اور نسبتاً کم خرچ ہے۔
منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے فنڈز، پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ، اور عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک یا ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی مالی معاونت حاصل کی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی کمپنیوں کی خدمات حاصل کر کے اس منصوبے کو موثر طریقے سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔
سمندری پانی کو صاف کرنے سے کراچی کے شہریوں کو مستقل اور قابل بھروسہ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ، صنعتی ترقی، بہتر عوامی صحت، اور مجموعی طور پر پیداواریت میں اضافہ ہوگا۔ ضروری ہے کہ اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے جدید تکنیکیں اپنائی جائیں، جیسے برائن ڈسچارج کو درست طریقے سے منظم کرنا اور قابل تجدید توانائی کا استعمال۔
کراچی کی بقا اور ترقی کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو اس منصوبے کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ پانی کے بحران کا دیرپا حل فراہم کیا جا سکے اور پاکستان کے دیگر پانی کی قلت والے علاقوں کے لیے ایک مثال قائم کی جا سکے۔