وبا زدہ سہاگ رات

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
مسہری پر لگے گلاب کے پھولوں کی خوشبو کو نادیہ کے مہندی لگے ہاتھوں سے اٹھنے والی سینیٹائزر کی تیز مہک نے ماند کر دیا تھا۔ ڈاکٹر امجد دبے پاوں کمرے میں داخل ہوا تو سنہری شیروانی سے اٹھتی ڈیٹول کی خوشبو کلورین سے دھوئے فرش کی خوشگوار مہک سے مل کر ماحول پر نشہ سا طاری کرنے لگی۔ امجد نے گہری سانس بھری۔ اک لمحے کو اسے احساس ہوا کہ وہ ایسے وارڈ میں ہیپاٹائٹس کے مریض کے سرہانے کھڑا اپنی ڈیوٹی پر موجود ہے جس کو سویپر ابھی ابھی ٹاکی مار کر گیا ہو۔ ڈاکٹر امجد نے ڈیٹول کی ڈبی اتار کر کھونٹی پر ٹانگی اور چہرے پر مسکان سجائے وہ گھونگھٹ نکالے منتظر بیٹھی نادیہ سے چھ فٹ کے فاصلے پر بیڈ کے دوسرے کنارے دبک کر بیٹھ گیا۔

ایسی گھمبیر و پراسرار خاموشی چند لمحوں کو ماحول پر چھانے لگی جیسے وارڈ میں مریض کا دم نکل گیا ہو۔ ڈاکٹر امجد نے گلہ صاف کرنے اور سلسلہ کلام شروع کرنے کو ہلکی سی کھانسی کی تو دلہن بنی بیٹھی نادیہ مزید سمٹ گئی۔

“آداب۔ نادیہ ، آج ہمارے من کی مراد پوری ہوئی۔ یقین مانیئے اس گھڑی کے انتظار میں کتنے شب و روز بیقراری میں بتائے ہیں اور دیکھیئے جب لگن سچی ہو تو انسان مراد پا ہی لیتا ہے۔ اب آپ ہماری دلہن بنی سامنے بیٹھی ہیں تو ہم کو الفاظ ہی نہیں مل رہے کہ کس طرح اپنے سلگتے جذبات کا اظہار کر سکیں” ۔ ڈاکٹر امجد دھیمے سے بولے

گھونگھٹ میں کچھ ہلچل ہوئی اور مدھم سی سرگوشی میں نادیہ نے “ہمممممممممم” کیا۔ پھر دلہن نے اپنی ٹانگیں مزید سمیٹ کر مہندی رچے ہاتھوں سے اپنے حصار میں لے لیں۔ سینیٹائزر کی تیز مہک کا جھونکا آیا جو ڈاکٹر امجد کی دھڑکنوں کو تیز کر گیا۔

“نادیہ، ہمیں بخوبی احساس ہے کہ ہمارا ملن اس گھڑی ہو رہا ہے جب کورونا وائرس نے انسانوں کے بیچ فاصلے کھڑے کر رکھ ہیں مگر یقین مانیئے کوئی دیوار ہمارے دل کے بیچ حائل نہ ہو سکی۔ اگر اجازت دیجیئے تو ہم اپنی جان کا گھونگھٹ اٹھا کر چاند کو کمرے میں اترا دیکھ لیں؟ ” ڈاکٹر امجد بے چین ہو کر لڑکھڑاتی آواز میں بولے۔

کرتے سے اٹھتے ڈیٹول کے بھبھوکے دلہن کی سانسوں سے ملے تو دلہن کسمسائی اور مزید سمٹتے ہوئے انتہائی دھیمے جیسے سرگوشی کے انداز میں بولی “ہمممممممم” ۔۔ ڈاکٹر امجد نے اس کو رضامندی کا اشارہ سمجھا۔ وہ کمرے کے چہار جانب متلاشی آنکھوں سے کچھ ٹٹولنے لگے۔ اردگرد کا جائزہ لیتے امجد کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں ہوئے۔ یکایک وہ اٹھے اور سائیڈ ٹیبل کے درازوں کو یکے بعد دیگرے کھول کر ٹٹولتے اور بند کرنے لگے۔ گھونگھٹ کی آڑ سے یہ منظر دیکھتی نادیہ سہم سی گئی۔ اس نے گھبرا کے “ہمممممممم” کرنا چاہا مگر جیسے کوئی پھانس گلے میں اٹک گئی ہو۔ وہ بس “ممم” ہی کر سکی۔۔ نادیہ کے ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے۔ وہ خود سے گرہیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر امجد کیا ڈھونڈ رہے ہیں ؟ کس چیز کی تلاش نے ان کو اتنا بے چین کر رکھا ہے ؟ ایسے کئی سوال گھونگھٹ کے اندر چکر کھانے لگے۔

یکایک ایک دراز کے کھلتے ہی ڈاکٹر امجد کے چہرے پر خوشی امڈ آئی۔ ان کے چہرے پر مسرت بکھری تو یہ منظر دیکھتی نادیہ مزید سہم گئی۔ امجد کے منہ سے نکلا “مل گیا” ۔۔۔ اور اس نے دراز سے ایک بند پڑی سیلفی سٹک نکالی۔ “سیلفی سٹک اور اس وقت ؟ ” نادیہ تو جیسے سوالوں کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی۔

ڈاکٹر امجد سٹک ہاتھ میں تھامے واپس اپنی مقررہ جگہ پر آن بیٹھے۔ سیلفی سٹک کو سٹیپ بائی سٹیپ کھولنے لگے۔ دلہن سہم کر گٹھری بن چکی تھی۔ چھ فٹ کے فاصلے پر بیٹھے امجد نے سٹک کا اگلا حصہ دلہن کے گھونگھٹ تک پہنچایا۔ دلہن گھبرا کر پیچھے ہٹی مگر ڈاکٹر امجد سیلفی سٹک سے گھونگھٹ الٹا چکے تھے۔۔۔ نادیہ کا چہرہ دنگ پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی رہ گئیں۔

“آہ ، نادیہ ۔۔۔ ہماری قسمت دیکھیئے ایک دریا کو مشکل سے پار کیا تو دوسرے دریا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب آپ کا ماسک ہم سے کیسے اتر پائے گا ؟ آپ خود ہی اپنے نازک ہاتھوں سے ماسک اتاریئے تو زندگی بھر آپ کا ممنون رہوں گا” ۔ امجد نے التجا بھرے لہجے میں یوں کہا جیسے وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہو۔

دلہن یہ سن کر قدرے نارمل ہوئی۔ اس نے لمبی سانس بھری اور سرگوشی کے انداز میں دبے دبے “ہمممممم” کہا۔ پھر مہندی رچے ہاتھ ماسک تک پہنچے۔ ماسک اترنے لگا۔ پردہ کشائی مکمل ہوئی۔ نادیہ بت بنی امجد کو تکنے لگی جو پھٹی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دونوں کے بیچ سیلفی سٹک جتنا فاصلہ حائل تھا۔ دلہن نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔ امجد نے کرتے کی جیب سے سینیٹائزر نکالا۔ ہاتھوں پر ملا اور ڈبی نادیہ کی جانب اچھال کر بولا ” منہ دکھائی کو اس سے بہتر تحفہ آج کے حالات میں مجھے نہ مل سکا۔ یقینن آپ کو ہماری پسند پسند آئے گی” ۔۔۔ نادیہ نے ڈبی اٹھائی۔ لائف بوائے کے سینیٹائزر کو کھول کر اپنے ہاتھوں پر ملتے ہوئے “ہمممممم” بولی اور چشم تشکر سے امجد کو دیکھنے لگی۔

ڈاکٹر امجد نے بتی بند کی اور محفوظ فاصلے پر خراٹے بھرنے لگے۔ دلہن نے اپنی جگہ دراز ہوتے ہوئے آنکھیں موندیں۔ کمرے میں کلورین کی خوشبو ڈیٹول اور سینیٹائزر کے ساتھ مل کر نشہ طاری کر چکی تھی اور کمرا پورا کرونا وائرس کے رنگ میں رنگا جا چکا تھا۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں