ٹیسٹ میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس استعمال کرنے میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کارروائی کریں۔طلبہ و طالبات کے والدین کی مطالبہ
پشاور(نمائندہ خصوصی)گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے مطابق ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ محض ایک ٹیسٹ نہیں ہوتا بلکہ اسکے پیچھے معصوم طلباء کی چودہ سال کی محنت ہوتی ہے ایک بچہ جب سکول میں داخل ہوتا ہے تو اسکی آنکھوں میں کچھ خواب ہوتے ہے جو عمر کی منزلیں اور کلاس کے درجے بڑھنے سے اور بھی پختہ ہو جاتے ہے چھوٹی کلاس سے بڑی جماعت تک محنت کو اپنا وطیرہ بنا لیتے ہے کیونکہ انکو چھوٹی عمر میں اذبر کیا جاتا ہے کہ محنت میں عظمت ہے۔شبوروز کی محنت اور ماؤں کی دعاؤں سے بارھویں تک ہر جماعت پوزیشن اور اچھے نمبروں کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے بچپن کے خواب کی تعبیر پانی ہوتی ہے اور اپنے والدین کی دیرینہ خواہش پوری کرنی ہوتی ہے اور اپنی اس محنت کا پھل حاصل کرنا ہوتا ہے جس کے لیے رات رات بھر جاگ کر انھوں نے پڑھائی کی ہوتی ہے۔ بارھویں کے بعد ایک بہت کٹھن مرحلہ آتا ہے اور وہ ہوتا ہے ایم ڈی کیٹ کے لیے تیاری ۔اس میں بچے دن رات ایک کرکے پڑھائی کرتے ہے اور مائیں رات بھر تہجد میں اللہ سے گڑگڑا کر بچے کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتی ہے دن اور رات وظائف میں اللہ سے مدد کی التجاء کرتی ہے۔لیکن جب ٹیسٹ کا دن آتا ہے اور ٹیسٹ بچوں کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کے ٹیسٹ بنانے والے نے نہ بچوں کی محنت کو ذھن میں رکھا ہے اور نہ انکے مستقبل کو بس آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ٹیسٹ تخلیق کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کے شاید اپنے بچے نہیں ہوتے یا شاید وہ خود اس دور سے نہیں گزرے ہوتے۔تبھی تو انکا دل احساس سے عاری ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ اس ٹیسٹ کے دوران ہوتا ہے وہ سب کچھ بعض اوقات ایک بچے کو اور اسکے والدین کو برباد کر دیتا ہے انکے مستقبل کو سیاہ تاریکی میں دھکیل دیا جاتا ہے کیونکہ اس ٹیسٹ کے نتائج اتنے غیر متوقع اور عجیب ہوتے ہے کہ آگے کا ہر راستہ بند کر دیتا ہے ہر دفہ بچے ٹیسٹ دیتے ہے اور ہر دفعہ انکو فیل کیا جاتا ہے بچے پاس ہونے کی امید میں بار بار ٹیسٹ دیکر اپنے کئی سال ضائع کر دیتے ہے کہ شاید اس دفعہ پاس کر دے لیکن نتیجہ وہی زیرو۔ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے جس میں ہم جیسوں کی انکم نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے بچے بار بار سال ضائع کرکے ٹیسٹ دیتے ہے ہمارے ملک کے شرفاء کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ وہ سال ضائع کیے بغیر اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنا سکتے ہے لیکن اگر کچھ برا ہوتا ہے تو صرف ہمارے غربیوں کے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے ھمارے بجے رل جاتے ہے آن کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور یہ صرفایم ڈی کیٹ عملے کے بے حسی کی انتہا کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس سال اس ٹیسٹ میں جو کچھ ہوا اس نے ان تمام ھونہار طلباء کے حوصلے پست کر دیے ہے انکو ایک بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے اب ان غریب بچوں کا کیا ہوگا انکے آنے والے مستقبل کا کیا ہوگا انکے خوابوں کا کیا ہوگا ان والدین کا کیا ہوگا جن کی صرف امید یہی بچے ہیں۔ طلبہ و طالبات کے والدین نے بین الاقوامی گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایم ڈی کیٹ عملے سے پرزور مطالبہ ہے کہ طلبہ و طالبات سے ایم ڈی کیٹ امتحان دوبارہ لیا جائے کیونکہ یہ طلبہ و طالبات کا بنیادی حق ہےاور خدا کے لیے جان بوجھ کر ٹیسٹ کو سلیبس سے ہٹ کر نہ بنایا جایے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیسٹ میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس استعمال کرنے میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کارروائی کریں۔