میں پاکستان کی کمیونٹی اتاشی جنرل آف پاکستان
مانچسٹر مصباح نورین کا انٹرویو کرنے قونصلیٹ آف پاکستان پہنچی۔ جیسے ہی میں اپنی کیمرا لیڈی مریم لطیف کے ہمراہ ان کے آفس پہنچی تو میں نے اپنے سامنے نہایت ہی سادہ ، پروقار ، سلجھی ہوئی اور باخلاق خاتون کو پایا ۔مصباح نورین نے بڑی گرم جوشی سے میرا اور میری ساتھی کا استقبال کیا اور پر تکلف چائے کا آڈر دیا ۔ چائے کے دوران ہماری ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی۔ چائے کے بعد میں نے انٹرویو شروع کیا اور انھوں نے بڑی خوبصورتی سے میرے سوالات کے جواب دئیے۔
صابرہ ناہید : میں اپنی اور اپنی پوری ٹیم کی طرف سے مانچسٹر میں بطور کمیونٹی اتاشی تعیناتی پر آپ کو مبارک پیش کرتی ہوں اور خوش آمدید کہتی ہوں۔
مصباح نورین : بہت شکریہ ۔ میں آپ کو اپنے آفس میں خوش آمدید کہتی ہوں۔ صابرہ ناہيد : آپ کی بیرون ملک یہ پہلی تعیناتی ہے کیا؟
اتاشی جنرل : جی میری بطور اتاشی جنرل آف پاکستان مانچسٹر میں پہلی تقرری ہے ۔ دراصل کمیونٹی اتاشی کی تقرری کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ اس کا ایک مقابلتی امتحان ہوتا ہے اور جو اس میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کا پھر انٹرویو ہوتا ہے اور پھر انٹرویو پینل قابلیت کی بنا پر امیدوار کی بطور اتاشی جنرل سلیکشن کرتا ہے ۔
صابرہ ناہيد : پاکستان سے یہاں آ کر کیسا محسوس کر رہی ہیں ؟
اتاشی جنرل : بہت اچھا محسوس کرتی ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک تو ملک کا فرق ہے اور دوسرا میری نوکری کی حیثیت کا فرق ہو گیا وہاں پہلے مجھے بہت سے افسران کے نیچے کام پڑتا تھا جبکہ بطور اتاشی جنرل یہاں پر میری جاب کی حیثیت کچھ فرق ہے یہاں قونصل جنرل کے بعد میں اپنی ٹیم کی سربراہ ہوں اور یہاں آ کر میرا جو پہلا رابطہ ہے وہ براہ راست پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہے اور میں نے پاکستانی کمیونٹی کو بہت ملنسار اور تعاون کرنے والی پایا ہے اور ان کے ساتھ کام کر کے مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
صابرہ ناہيد : بطور اتاشی جنرل آپ کمیونٹی کے لئے کس نوعیت کی مدد اور راہنمائی کرتی ہیں۔
اتاشی جنرل : لوگ میرے پاس اپنے مختلف نوعیت کے مسائل لے کر آتے ہیں جنھیں حل کرنا میری پہلی فوقیت ہوتی ہے ۔ بعض لوگ اپنی آرا سے بھی ہمیں مستفید کرتے ہیں جن سے ہم بعض مسائل کرنے میں مدد بھی لیتے ہیں۔
صابرہ ناہيد : ماشاءاللہ آپ نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ظاہر ہے یہ بہت مشکل بھی ہے آپ جیسی نازک سی خاتون کا اس شعبے میں آنا ۔ کیا آپ کسی سے متاثر ہو کر اس شعبے میں آئیں یا بچپن سے ہی آپ اس شعبے میں آنا چاہتی تھیں ؟
اتاشی جنرل : جی نہیں میں خاص طور پر کسی سے متاثر تو نہیں ہوئی ۔ آپ جانتی ہیں کہ ہمارے دور میں میڈیسن اور انجنیئرنگ کے شعبے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اس زمانے میں سی ایس ایس کی طرف لوگوں کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا لیکن چونکہ میرے والد نے سی ایس ایس پاس کرنے ایک کوشش کی ہوئی تھی اور انھیں اس کی اہمیت کا اندازہ تھا لہذا میں نے چاہا کہ یہ امتحان پاس کروں اور الحمدللہ میں نے اس میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور مجھے قونصلیٹ میں نوکری مل گئی ۔
صابرہ ناہید : شاید آپ کی والدہ آپ کو ڈاکٹر دیکھنا چاہتی تھیں؟
اتاشی جنرل : جی میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں میں نے بہت محنت کی مگر 05۔ نمبروں سے مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ ملنا رہ گیا ویسے میں نے اپنی والدہ کی خوشی کے لئےمحنت بہت کی مگر ویسے بھی مجھے گائنی پسند بھی نہیں تھی اور میں پھر اس شعبے کی طرف آ گئی مگر والدہ ابھی بھی کہتی ہیں کہ اگر تمہیں داخلہ مل جاتا تو تم آج ڈاکٹر ہوتی ویسے میرے والد میرے اس شعبے سے بہت خوش ہیں۔
صابرہ ناہيد : کیا آپ ہمیں اپنی فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گی ؟
اتاشی جنرل : میرا تعلق منڈی بہاوالدین سے ہے ۔جی میرے والد صاحب وکیل ہیں۔ میں پوری دنیا میں اگر کسی سے متاثر ہوں تو وہ میرے والد ہیں اور آج میں جو کچھ بھی یوں اپنے والد کی وجہ سے ہوں۔ان کی وجہ سے مجھ میں خود اعتمادی آئی ۔ میری والدہ ایک سادہ سی گھریلو خاتون ہیں جن کا میری تربیت میں بہت بڑا ھاتھ ہے۔ ان کے چچا آڈیٹر جنرنل آف پاکستان ہیں۔
صابرہ ناہيد : آپ نے پاکستان میں کام کرنے اور برطانیہ میں کام کرنے میں کیا فرق پایا ؟
اتاشی جنرل : دیکھیں یہاں میرا علیحدہ آفس ہے اور میں آزادانہ کام کر رہی ہیں گو کہ سی جی صاحب میرے اوپر ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن یہاں سی ڈبلیو ونگ میرے ماتحت ہے وہاں پر سارے فیصلے مجھے ہی کر نے ہوتے تھے مگر کچھ افسران کے ماتحت کام کر ناپڑتا تھا۔ وھاں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کام کرتی تھی مگر یہاں میں زیادہ خودمختار ہوں۔
صابرہ ناہيد : بطور کمیونٹی اتاشی آپ کے اوپر کون کون سی ذمہ داریاں ہیں ؟
اتاشی جنرل : دیکھیں ہم یہاں پولیس سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں کہ جو لوگ یہاں آتے ہیں ان سے یہاں جاب سیکیورٹی کے لئے یہاں کی کمپنیاں نوکری کے لئے ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ مانگتی ہیں ہم وہ مہیا کرتے ہیں ۔ ہم ڈیتھ بوڈیز کے این سی ایشو کرتے ہیں ۔ جو بھی پاکستانی جیلوں میں پاکستانی نظر بندھ ہیں ہم ان لئے جو بھی سہولتیں میسر ہیں وہ مہیا کرتے ہیں ۔ ایمرجنسی ڈوکیومنٹ مہیا کرتے ہیں ۔ یہاں کی کمیونٹی کے لئے زمین جائیداد اور فراڈ جیسے مسائل کے لئے سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ اتھارٹی لیٹر ایشو کرتے ہیں یا پھر یہاں کی گورنمنٹ کے ساتھ کوئی مشکلات یا کمیونٹی کو کسی قسم کے مسائل ہوں ان کو حل کرنے میں ان کی مدد کر نا شامل ہے۔
صابرہ ناہيد : آپ نے ابھی ذکر کیا کہ آپ کو یہاں کی جیلوں میں جانا پڑتا ہے تو آپ نے یہاں قیدیوں کے لئے کون سی سہولیات دیکھیں ؟
[ ] اتاشی جنرل : مجھے یہاں کی بہت ساری جیلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے دیکھا قیدیوں کو بہت سی سہولتیں میسر ہیں جیسے کہ فٹ بال اور دیگر کھیل ، وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ، لائبریری ہے ۔ قرآن اور نماز پڑھانے کے لئے امام بھی ہے چھوٹی موٹی نوکری میسر ہے ۔ کچھ جیلوں میں امتیاز برتنے کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے ایسی شکایات کا بھی ازالہ کیا جائے۔
صابرہ ناہيد : آپ کو اپنی تقرری کے اس مختصر دور میں کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش آیا ؟
اتاشی جنرل : جی ویسے تو کوئی ایسے مسائل پیش نہیں آتے لیکن بعض اوقات کچھ اونچ نیچ ہو بھی جاتی ہے مثال کے طور پر کسی پروگرام میں میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ ہمیں اپنے ملک کے بارے میں اچھی سوچ رکھنی چاہیے نہ کہ ہم اپنے ملک کے حالات کو ہر وقت تنقیدی نگاہ سے دیکھیں جس کے لئے میں نے اپنے ایک ہمسایہ ملک کی مثال بھی دی ۔ تو ایک خاتون نے بحث شروع کی کہ میرے بچے تو پاکستان جانا نہیں چاہتے ۔ائرپورٹ پر ہی ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے وغیرہ اور پھر ابھی ایک دو دن پہلے ایک خاتون نے قونصلیٹ میں خوب ہنگامہ برپا کیا جبکہ اس کی درخواست پر میں ذاتی طور پر کام کر رہی ہوں لیکن اس کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ نفسیاتی مریض ثابت ہوئی اور ہم نے اسے بڑی مہارت سے سنبھالا۔ ویسے زیادہ تر لوگ ہمارے کام سے مطمئن ہوتے ہیں۔
صابرہ ناہيد : آپ کی شادی پسند سے ہوئی یا والدین کی پسند سے ؟
اتاشی جنرل : جی میری شادی بالکل والدین کی پسند کی ہوئی اور میں نے اپنے میاں کو پہلی بار اپنی شادی والے دن دیکھا۔
صابرہ ناہيد : آپ کے میاں کس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ؟
اتاشی جنرل : میرے سول جج ہیں ۔
صابرہ ناہید : آپ کے کتنے بچے ہیں اور انہیں کس مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں ؟
اتاشی جنرل : میرے 3 بچے ہیں 2 بیٹیاں اور 1 بیٹا میری بیٹی 9 سال کی ہے اور بیٹا 3 سال کا۔ میں چاہتی ہوں کہ اچھے انسان بنیں اور اعلی تعلیم حاصل کریں باقی ان پر منحصر ہے کہ بڑے ہو کر وہ کون سا شعبہ اختیار کرنا چاہیں گے۔
صابرہ ناہید : ظاہر ہے آپ بطور کمیونٹی اتاشی بہت مصروف ہوتی ہیں ۔ کام کے بعد بھی کمیونٹی پروگراموں میں مصروف ہوتی ہیں تو بچے کبھی کوئی گلہ کرتے ہیں ؟
اتاشی جنرل : دراصل میری غیر موجودگی میں وہ بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔
صابرہ ناہید : آپ کی غیر موجودگی میں ان کی دیکھ بھال کون کرتا ہے ؟
اتاشی جنرل : آج کل تو میرے میاں کر رہے ہیں اور اس سے پہلے میری والدہ کرتی تھیں۔
