محمد طاھر شہزاد 18 جولائی 2020
سرکس کا نام ذہن میں آتے ھی شیروں ھاتھیوں گھوڑوں اور جوکروں وغیرہ کے خوبصورت انداز اور شاندار کمالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں ۔
سرکس کے بھی کیا خوب اندازھوتے ہیں رنگ ماسٹر ایک چھوٹی سی چھڑی کے اشارے پر خطرناک ترین جانوروں کو اپنے اشاروں پر نچاتانظر آتا ھے ۔ حقیقی زندگی میں دیکھا جائے تو ان خطرناک ترین جانوروں کے دھاڑنے کی آوازسے ہی دل دہل جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی کے انہیں خطرناک ترین جانوروں کو رنگ ماسٹر کمال مہارت سے اپنی چھڑی کے اشاروں پر نچاتا نظر آتا ھے ۔
ہمارے ملک میں قائم مایا ناز سرکس کا کھیل پچھلے 73 سالوں سے عروج پر ھے ۔ مگر مزے کی بات ہے کہ اس سرکس میں نہ گھوڑے ہیں نہ شیر اور نہ ہاتھی مگر کمال مہارت سے رنگ ماسٹر پچھلے73سال سے گدھوں کو ہی شیروں کے کاسٹیوم پہنا کر دیکھنے والی عوام کو محظوظ کرواتا نظر آتا ھے ۔ مگر اب اس سرکس کی یہ حالت ھے کہ عوام اس سرکس سے بور ھو چکے ہیں مگر رنگ ماسٹر ھے کہ صرف گدھوں سے ھی ھاتھی گھوڑوں شیروں کے کرتب دکھانے کی کوشش میں مگن ھے ۔ سرکس تباہ ھو چکا ھے مگر شائید گدھوں کے ساتھ رھتے رھتے رنگ ماسٹر خود بھی گدھوں کے رنگ میں رنگ گیا ھے ۔ مگر بضد ھے کہ سرکس اس نے گدھوں سے ھی چلانا ھے ، گدھا تو گدھا ھی ھوتا ھے کاسٹیوم پہنا دینے سے گدھا شیر تو نہیں بن جاتا نا ۔ مگر رنگ ماسٹر کا کہنا ھے کہ گدھے کو سدھانا نہیں پڑتا کیونکہ گدھا دنیا کاسب سے بیوقوف جانور ھے اسے صرف چھڑی کی ضرب سے ہی اپنی مرضی سے کنٹرول کیا جاسکتا ھے ۔ یا شائید رنگ ماسٹر کو اصلی شیروں ہاتھیوں سے خوف آتا ھے کہ کہیں بپھر گئے تو رنگ ماسٹر کو ہی لقمہ اجل نہ بنا ڈالیں ۔
اسی لیے شیروں اور دیگر خطرناک جانوروں سے خوفزدہ رنگ ماسٹر پچھلے 73 سال سے گدھوں کے ھاتھوں اس سرکس کو تباہ کرواتا چلا آرہا ھے ۔ سرکس کی حالت یہ ھے کہ عوام اس سرکس سے بیزار نظر آتی ھے اور جا بجا گدھوں کی لد نے ماحول کو انتہائی بدبو دار بناڈالا ھے ۔ مگر رنگ ماسٹر کو اپنی قابلیت پر اب بھی یقین ھے کہ وہ انہی گدھوں سے سرکس کو کامیاب بنا کر دکھائے گا۔
داد دینی چاہیے رنگ ماسٹر کو کہ گدھوں کو تو شیر نہ بناسکے مگر شیروں کو گدھا ضرور بنا دیا ھے ۔
گدھے ہیں کہ شیر کے کاسٹیوم پہن کر بھی ڈھینچوں ڈھینچوں ، دولتیوں اور لد اور مٹی سے بھری بدبودار زمین پر لوٹیاں لگانے سے باز نہیں آتے مگر رنگ ماسٹر زور زور سے تالیاں بجا کر ھال کو فخریہ انداز میں بتاتا نظر آتا ھےکہ اس نے شیروں کو بھی گدھا بنا ڈالا ھے ۔ عوام تنگ آ گئے ہیں اس بدبو دار ماحول میں گدھوں کے شور سے یا شائید یہ سرکس کچھ اور چلا اسی بدبو دار اور گدھوں کے شور آلود ماحول میں تو کہیں عوام بھی تنگ اگر سرکس کو ہی تحس نحس نہ کر دیں ۔
سرکس کے حالات یہاں تک مخدوش ھو چکے ہیں کہ جانور بھی بھوکے مرنے لگے ہیں مگر رنگ ماسٹر کواپنی عیاشیوں سے فرست ھی نہیں ملتی ۔ رنگ ماسٹر کو صرف اپنے پیٹ کی فکر ھے سرکس کے تباہ و برباد ھونےکی نہیں ، سرکس کی اسی مخدوش حالت کے پیش نظر رنگ ماسٹر کبھی کبھار خود بھی جوکر کا کاسٹیوم پہن کر رنگ میں کود تا نظر آتا ھے ، مگر شائید گدھوں کے ساتھ رھتے رھتے گدھوں کی عادات سے چھٹکارا پانا اب رنگ ماسٹر کے بس سے باھر ھو گیا ھے ۔ رنگ ماسٹر جوکر کے روپ میں تنی ھوئی رسی پر چلنے کی کوشش کرتا ھے مگر جس کا کام اسی کو ساجھے کے مترادف کبھی ایک قدم اور کبھی دوقدم ھی چل پاتا ھے اور دھڑام سے منہ کے بل گوبر میں گر کر لت پت آپنی شرمندگی کو اپنی ھی تالیوں میں چھپاتا نظر آتا ھے ۔ کبھی کھڑے کھڑے دولتیاں مارنے لگتا ھے اور کبھی ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازسے پورے سرکس کو سر پر آٹھاتا نظر آتا ھے ۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ عوام کو گدھوں کی دولتیوں اور ڈھینچوں ڈھینچوں کے کان پھاڑنے والے شور اور لد سے پیدا شدہ بدبو سے توجہ ہٹانے کے لیے رنگ ماسٹر نے جوکرز کی جگہ مراسیوں کو رنگ میں کرتب دکھانے پر مامور کیا ھوا ھے ۔ مراسی اور وہ بھی جوکر کے کاسٹیوم میں ذرا تصور میں سوچیں کتنا خوبصورت امتزاج بنتا نظر آتا ھے ۔
گدھے پرکھڑے ھو کر کرتب دکھانے پر مامور جوکر ابھی گدھے پر سوار ھی ھوتا ھے توتماش ہینوں میں سے کوئی منچلہ ڈھولک پر تھاپ لگادیتا ھے اور مراسی کے کاسٹیوم میں جوکر اپنی جوکری بھول کر ٹھمکے لگانے لگتا ھے ۔ جوکروں کا کام تو گدھوں کی پرمارمنس سے بدظن عوام کی توجہ دوسری طرف محظوظ کروانا ھوتا ھے مگر جب ڈھول کی تھاپ سنائی دیتی ھے تو جوکر پر مراسی پن غالب آجاتا ھے ۔ مگر اس سارے سرکس کے بدبودار ماحول اور گوبر سے لتے ڈھینچوں ڈھینچوں کی کان پھاڑتی آوازوں کے باوجود رنگ ماسٹر بضد ھے کہ وہ ایک نہ ایک دن اس سرکس کو کامیاب بنا کر اپنے بدبو دار کپڑے اور چہرے پر لگی لد کو صاف کر کے عوام کے سامنے فخریہ انداز میں کہہ سکے گا کہ دیکھو میں نے اپنے ھاتھوں تباہ کیا گیا سرکس بل آخر کامیاب بنا ھی دیا ۔ مگر شائید رنگ ماسٹر یہ حسرت ھی دل میں لے کر رخصت ھو جائے ۔ کیونکہ اب اس سرکس کو بچانا نا ممکن نظر آتا ھے ۔ کیونکہ نہ رنگ ماسٹر گدھوں سے جان چھڑانا چاہتا ھے اور نہ گدھوں کے بغیر رھ سکتا ھے اور نہ رنگ ماسٹر سے سرکس کی جان چھڑانا ممکن ھے ۔
اب اس تباہ حال سرکس کو بچانا اب تبھی ممکں ھے جب یا تو گدھوں سے نجات دلائی جائے اس سرکس کواور یہ تبھی ممکن ھوسکے گاجب رنگ ماسٹر کو اس سرکس کے کھیل سے دور رکھا جائے ۔
آج ہمیں قاضی کی پوشاک میں بہت سے مراثی نما جوکرز نظر آتے ہیں جو ذراسی ڈھولک کی تھاپ پر تھرتھرانے لگتے ہیں اور اپنا اصل کام بھول کر ٹھمکے لگانے لگتے ہیں ۔ اور خان صاحب جیسے حکمران نظر آتے ہیں جو لد اور بدبو سے اس سرکس کو انتہائی بدبو دار بنانے اور صرف ڈھینچوں ڈھینچوں کے شور سے قوم کو محظوظ کراتے نظر آتے ہیں ۔ اور رنگ ماسٹر پورے سرکس کو تباہ کرنے کے باوجود انہی گدھوں کی لد پر دھمال ڈالتا نظر آتا ھے ۔
آج قوم کو سوچنا ھوگا کہ کیا ہمیں آج قاضی کے روپ میں جوکروں اور مراثیوں کی ضرورت ھے یا ؟
اور حکمرانوں کے روپ میں گدھوں کی یا ؟
ذراسوچئیے ؟