3 اپریل 2020 کی رات ایک صاحب کی نشان دہی پر سفید پوش خاندان کو راشن دینے کے بعد جب سرجانی سے گھر واپسی کے لیے چورنگی سے گزرنے لگا تو ہر طرف سنّاٹے اور گھٹاٹوپ اندھیرے کا راج تھا ایسے اندھیرے میں ایک دھیمی سی آواز آئی “بھائی مدد” میں نے یہ سوچ کر نظر انداز کرنا چاہا کہ کوئ پیشہ ور گداگر ہوگا لیکن دل میں خیال آیاکہ پیشہ ور ہوتا تو اندھیرے میں یوں اس وقت کھڑا نہ ہوتا، گاڑی روک کر پاس گیا، دیکھا اندھیرے میں ایک شخص منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔
“جی بھائی! کیسی مدد چاہئیے؟ اور یوں منہ چھپائے اندھیرے میں کیوں کھڑے ہو؟ ہاتھ تو ہٹائیے۔”
میرے کہنے پر اُس نے اپنے ہاتھ چہرے سے ہٹائے۔اللہ کی پناہ۔۔۔۔! اس شخص کے گال آنسووُں سے بھرے تھے اور گھٹی گھٹی آواز میں رو رہا تھا، دونوں ہاتھوں کو گالوں سے ہٹا کر معافی مانگنے کے انداز میں جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور سر نیچے جھکا لیا۔۔۔۔ میں اس اندھیرے میں بھی اس کے آنسو تھوڑی سے ٹپکتے دیکھ پا رہا تھا اندر ہی اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا، آگے بڑھا اور دوبارہ ہمدردی سے پوچھا۔
“بھائ کچھ تو کہئیے۔۔۔۔۔”
کچھ کہنے کے بجائے وہ شخص آگے بڑھا اور گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کے رونے لگا اور کہنے لگا۔۔۔”بھائ۔۔۔۔بھائ۔۔۔! میں بھوکا رہ لوں گا لیکن مجھ سے اپنی دو چھوٹی بچیوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی اُن کا بھوک سے تڑپنا، بلکنا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، کل سے گھر میں کھانے کو ایک دانہ نہیں اور میری بچیاں صبح سے بابا بھوک لگی ہے بابا بھوک لگی ہے بابا کھانا لاوُ کی فریاد کر رہی ہیں بھائ کبھی زندگی میں ایسا نہیں ہوا کہ میری بچیاں بھوکی سوئ ہوں روزانہ کھانے کے ساتھ بچیوں کے لیے فروٹس لاتا تھا آج بچیاں کہتی ہیں بابا بھلے ہمیں فروٹس نہ دو ہم ضد نہیں کریں گی پر کھانا تو دے دو آپ تو بابا ہماری ہر بات مانتے تھے اب ہم کھانا مانگ رہے ہیں تو کھانا کیوں نہیں دیتے؟ صاحب میں فقیر نہیں ہوں لاک ڈاوُن کی وجہ سے حالات ایسے ہوگئے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا صاحب آپ گھر چل کر دیکھ لو آٹے کا ایک ذرّہ بھی نکلے تو جو چور کی سزا۔ آپ میرا شناختی کارڈ رکھ لو، جتنے فوٹو کھینچنے ہیں کھینچ لو بس میری بچیوں کو چل کر اپنے ہاتھ سے کھانا دے دو میں اور بیوی بھوکے سوجائیں گے۔”
یہ کہہ کر وہ شخص پھوٹ پھوٹ کر دوبارہ رونے لگا۔۔ دل میں خیال آیا میں بھی بیٹی کا باپ ہوں خدا نہ کرے کبھی میری بیٹی پر ایسا وقت۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ خدا کی قسم دل پھٹتا محسوس ہونے لگا۔۔۔۔ سارا جسم کانپ سا گیا۔۔۔۔ زبان جیسے بولنا بھول گئ۔۔۔ خاموشی سے اُس شخص کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر کی جانب چل پڑا، دورانِ سفر اس نے بتایا کہ اُس کا نام صابر ہے ١٣ سال سے گھروں پر کلر کا کام کرتا ہے محنت مزدوری کر کے اپنا گزر بسر کرتا تھا لیکن لاک ڈاوُن کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے جان پہچان والوں سے مانگنے کی ہمت نہیں پڑی۔
گھر پہنچ کر میں نے راشن کے تھیلے گاڑی میں رکھے اور صابر کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا، گھر کیا تھا بس ایک کمرا تھا، وہی ڈرائنگ روم، وہی بیڈ روم اور وہی کچن، نہ صوفے تھے نہ بیڈ، نہ الماری تھی نہ فریج۔ بس ایک کونے میں بجھا چولہا صابر کی مفلسی کو منہ چڑا رہا تھا اور دوسرے کونے میں دو پھول سی بچیاں بھوک کی چادر تانے سو رہی تھیں۔ صابر کی بیگم نے بتایا کہ بھائ صاحب جب بچیوں کا رونا برداشت نہ ہوا تو میں نے کھانسی کا شربت پلا کر سلا دیا۔۔۔
اندر روح تک جیسے کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو۔
سِسکتے دل، کپکپاتے ہاتھوں اور نم آنکھوں کے ساتھ راشن کے تھیلے کمرے کے کونے میں رکھ کر ایک پیار بھری نظر بچیوں پر ڈال کر اس دعا کے ساتھ صابر کے گھر سے نکل گیا کہ اے اللّٰہ! ان بچیوں کے نصیب اچھے فرما، اپنی مخلوق پر رحم فرما، بھوکوں کی مدد فرما آمین۔۔۔۔۔۔
آپ سب بھی اپنے اپنے محلے میں ڈھونڈئیے کہ کوئی صابر آپ کی گلی میں بھی تو نہیں رہتا؟؟ دعاوں کا طلبگار وقار احمد باجوہ😭😭😭😭😭😭😭پلیز پلیز اپنے ارد گرد دیہان دیں یہ منظر دل کو چین نہیں آنے دے رہا خدارا اس حالات میں سب ایک دوسرے کا ساتھ دیں پلیز