جہلم(چوہدری عابد محمود +مرزاکفیل بیگ کیفی)جہلم مہنگا میک اپ موبائل فون اور ذرائع آمدورفت کی ترقی نے دُلہنوں کی رخصتی کے وقت کھل کر رونے دھونے کا رواج ختم کر دیا۔اب دلہنیں صرف ویڈیو فلم بنوانے کے لئے خشک آنکھوں سے روتی دکھائی دیتی ہیں، سکھیاں، بہنیں بھابھیاں بھی روتے وقت ٹشو پیپر خشک آنکھوں پر پھیرتی دکھائی دیتی ہیں دہائیاں پہلے جب شادی کی تاریخ طے ہوتی تو جہاں دلہن کے دل میں پیا ملن کے ارمان جاگتے وہاں ماں باپ، بہن، بھائیوں، سکھیوں اور بابل کے آنگن سے جدا ہونے کا احساس بھی دل میں سما جاتا، دلہنیں اسی دکھ میں کھاناپینا چھوڑ دیتیں اور جب دور دراز کے دیہاتوں سے بارات پہنچتی اور کئی کئی روز تک دلہن کے گھر میں مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے بعد روانہ ہونے لگتیں، تو جدائی کا منظر بڑا دکھ بھرا ہوتا دلہن امبڑی، بھائیوں، بہنوں اور سکھیوں سے لپٹ لپٹ کر بے ساختہ رو تیں، رخصتی کے وقت ہر عورت کو اپنی رخصتی کا منظر یاد آتا اور بے اختیار سب خواتین دھاڑیں مار مار کر رونے لگتیں اور بابل کے آنگن سے جدائی کے گیت گانے لگتیں۔ ٹیلی فون اور ذرائع آمدورفت کی سہولت نہ ہونے کیوجہ سے سسرال میں میکے کی خبر کئی کئی ماہ تک نہ پہنچ پاتی اور کئی کئی ماہ بعد بابل، بھائی یا کوئی رشتہ دار اس کے سسرال آتا تو خاندان اور گاؤں کی خبر ملتی شادی شدہ لڑکی کبھی میکے میں آتی تو اسکی سکھیاں سہیلیاں اپنے سسرال میں ہوتیں اور کئی کئی سال تک ان سے میل ملاقات نہ ہو پاتی لیکن اب موبائل فونز، سوشل میڈیا کے سستے پیکجز زرائع آمدورفت کی سہولت، انٹر نیٹ اور ویڈیو کال کی سہولت نے جدائی کا تصور ہی ختم کر دیا ہے جس کیوجہ سے دلہن کے اندر اب جدائی کا احساس اس شدت سے جاگتا ہی نہیں کہ وہ بے ساختہ رو ئے۔ دوسری طرف ہزاوں روپے لگا کر بیوٹی پارلرسے کرائے گئے میک اپ کو بچانے کے لئے رونے پر پابندی عائد ہوتی ہے اس لئے اب دلہنیں اور سکھیاں، سہیلیاں بھی صدیوں سے جاری روایت کو نبھانے کے لئے بمشکل اپنے اوپر رونے کی ڈرامائی کیفیت طاری کرتی ہیں اور ویڈیو فلم میں خشک آنکھوں سے رو کر جدائی کا منظر محفوظ کرواتی ہیں۔
