
نغمانہ کنول شیخ مانچسٹر برطانیہ: قسط نمبر 1
“یہ کوٹ لکھپت جیل لاہور ہے “ قسط نمبر ایک 1“غالبا” 1990 کا آغاز ہے ““اک زینہ چڑھتی لٹرکی “یعنی نغمانہ کنول۔ اپنے جواں حوصلے سمیٹ کر بہت خود اعتمادی سے آہنی گیٹ پار کر کے محافظ سپاہئیوں کے جھرمٹ میں ( اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر )جیل میں داخل ہو چُکی ہے یہاں اسے اُن ڈاکوؤں کی شناخت پریڈ میں شرکت کرنی ہے جو اس کا سو تولہ سونا ڈائمنڈ کا سیٹ اور گھر کا تمام قیمتی سامان کلاشنکوفوں کے زور پر لوٹ کر لے گئے تھے ایک صاف ستھرے وسیع گراونڈ اور پھولوں کی کیاریوں سے گزر کر میں ایک دوسرے میدان میں لے جائ جاتی ہوں جہاں لگ بھگ دو سو سے اوپر قیدی آمنے سامنے دو لائنوں میں بٹھا دئے گئے ہیں اور وقفے وقفے سے وہ پانچ ڈاکو بھی جنوں نے ہمارے گھر میں ڈاکہ ڈالا تھا حلیہ تبدیل کر کے بٹھا دئیے گئے ہیں جیل کے باہر میری ماں بہن شوہر میرے تمام سُسرال والے اور تین ننھے منے بچے ہاتھ اُٹھا کر میرے لئے دُعا گو ہیں کیونکہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں کسی گولی کا نشانہ بھی بن سکتی ہوں تاہم اللہ کے سہارے بہت بہادری سے سب کی دُعاؤں کے حصار میں میں شناخت پریڈ شروع کرتی ہوں اور ڈاکوؤں کو کامیابی کے ساتھ شناخت کر لیتی ہوں یہ تمام واقعات گھنٹہ بھر میں مکمل ہوجاتے ہیں باہر نکل کر اپنے پیاروں اور چار مہذب اور با ادب محافظ پولیس اہلکاروں کے دستے اور قرابت داروں کے جھرمٹ میں ایک باقاعدہ جلوس کے ساتھ ماڈل ٹاؤن باجی کے گھر پہنچ کر بچوں سے گلے ملتی ہوں میری ماں زار زار رو رہی ہے اور میرے بچوں کی ماں یعنی کے میری آنکھیں برسنا بھی بھول چُکی ہیں ایک صبر ہے کہ میرے پیدا کرنے والے نے میری نس نس میں بھر دیا ہے ایک شُکر ہے جو زباں پر جاری ہے کہ عزت اور جان محفوظ رہی پھر کیا ہؤا اس سچی داستاں کی اگلی قسط میں پڑھیں شُکرن ۔