تحریر سید نوید احمد
اسلام میں عبادات کی مختلف اقسام واشکال ہیں۔ لیکن ہم صرف چند مخصوص عبادات کو عبادت اور نیکی سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ چیزوں کودنیا داری کی نوعیت سے سمجھتے ہیں۔ مثلا کسی کوخوشی اور مسرت عطا کرنا۔ عام لوگ اس کو ایک دنیاداری کا کام سمجھتے ہیں، حالانکہ کسی کوخوش کردینا اور اطمینان اور مسرت عطاکرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے، افضل اعمال میں سے ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی کے تقرب کا زریعہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اہل اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ دوسروں کواپنے اوپر ترجیح دیتے تھے، اور خود تکلیف برداشت کرلیتے لیکن دوسروں کو راحت اور مسرت مہیا کرنے کا اہتمام کرتے۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطھرات کے ہاں سے کچھ کھانے کا پتہ کروایا لیکن وہاں تو پانی کے علاوہ کچھ نھیں تھا۔ چناچہ آقاعلیہ الصلوۃ والسلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے فرمایا کہ کون آج اس آدمی کو اپنا مہمان بنائے گا؟ ایک انصاری صحابی نے کہا کہ وہ اس کی مہمان نوازی کریں گے۔ چناچہ وہ ان کو لے کراپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کا اکرام کرو۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ میرے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے۔ تو اس انصاری نے فرمایا کہ تم کھانا تیار کرو اور بچوں کوسلادو اور جب کھانا کھانے لگیں تو چراغ کے قریب بیٹھنا۔ چنانچہ اس انصاریہ رضی اللہ عنھا نے ایسے ہی کیا۔ جب کھانے کا وقت آیا تووہ چراغ کودرست کرنے کے بہانے اٹھیں اور اسے بھجادیا۔ اب دونوں میاں بیوی یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھارہے ہیں۔ لیکن درحقیقت انھوں نے بھوکے رات گزاری۔ جب یہ دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوکام تم نے رات کو کیا اللہ سبحانہ وتعالی اس سے بہت خوش ہوۓ۔
قال النبی صلى الله عليه وسلم: من أفضل الأعمال إدخال السرور على المؤمن، تقضي له دينا، تقضي له حاجة، تنفس له كربة۔ (ذكره الألباني في السلسلة الصحيحة)، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : افضل ترین اعمال میں سے ہے کسی مومن کو خوش کردینا، تم اس کا قرض اتار دو، اس کی ضرورت کو پورا کردو، اس کی مشکل کو دور کردو۔
ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أفضل الأعمال إدخال السرور على المؤمن؛ كسوت عورته، وأشبعت جوعته، أو قضيت له حاجة. رواه الطبراني وحسنه الألباني. افضل ترین اعمال میں سے ہے کسی مومن کو خوش کردینا، (اس کی چند صورتیں یہ ہیں کہ) تم اس کے عیب کوچھپاؤ، اس کی بھوک مٹادو، اس کی حاجت کو پورا کردو۔
ان احادیث مبارکہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری توجہ ان اعمال کی طرف دلائی ہے جن سے ہم بالعموم غفلت میں ہیں۔ ہم چند مخصوص طرز کی عبادات کو تو عبادت سمجھتے ہیں جیسے کہ نماز، روزہ اور حج وغیرہ ۔ ان پر ہم بہت زور دیتے ہیں، علماء اورخطباء ان کو اپنے خطبوں کا موضوع بناتے ہیں، لیکن کسی انسان کی مدد کرنا، کسی نادار کا پیٹ بھرنا، کسی مفلس مریض کی دوا کا انتظام کرنا، کسی مقروض کو قرض سے نجات دلانا، کسی مفلس کے بچے یا بچی کے نکاح کے اخراجات اٹھالینا، کسی بے گھر کے سرچھپانے کا انتظام کردینا، کسی کی عیب پوشی کرنا ۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ ان کاموں کو اہم نہیں سمجھا جاتا، یا توانھیں نیکی کا کام ہی نھیں سمجھا جاتا یا دوسرے اور تیسرے درجے کی نیکی تصور کیا جاتاہے۔ حالانکہ یہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں افضل ترین اعمال میں سے ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے واسطے کم نہ تھے کروبیاں