حکومت نے غریب عوام پر ایک اور خود کش حملہ کر دیا

Spread the love

جہلم(چوہدری عابد محمود +مرزاکفیل بیگ کیفی)جہلم حکومت نے غریب عوام پر ایک اور خود کش حملہ کر دیا،حکمرانوں نے ضمنی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ کم از کم 144 اشیا ء اس منی بجٹ کی زد میں آئیں گی جن پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کرکے 360 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ اس سے غریب آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ جن اشیا پر ٹیکس لگایا گیا ہے وہ غریب لوگ استعمال نہیں کرتے‘ مگر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی زد میں آنے والی اشیا کی فہرست دیکھ کر وزیر خزانہ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے چند درآمدی اشیا ایسی ہوں جو عام آدمی کے استعمال کی نہیں‘ مگر اس فہرست میں سینکڑوں اشیا ایسی ہیں جو ہر آدمی کی روزمرہ کی ضرورت ہیں۔حکومت نے ادویات کے خام مال‘ بیکری میں بننے والی روٹی‘ مٹھائی‘ بچوں کے دودھ کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا‘ دہی‘ پنیر‘ مکھن‘ کریم‘ مرغبانی کی صنعت کی بیشتر اشیا اور مرغیوں کی خوراک‘ سورج مکھی اور کینولا کے ہائبرڈ بیجوں‘ ڈیری فارمنگ اور گرین ہاؤس فارمنگ پر یکساں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس تجویز کیا ہے‘ جس کے لاگو ہونے سے خوراک اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اگر کوئی اس حقیقت کو نہیں مانتا تو وہ ہمارے وزیر خزانہ ہیں‘ جو 360 ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کر نے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہیں گے کہ ان ٹیکسوں کا اثر ان پر نہیں پڑے گا۔ صرف خوراک کے شعبے تک یہ اثرات محدود نہیں‘ ٹیلی فون اور ضرورت کی دیگر بہت سی اشیا‘ جن پر سیلز ٹیکس بڑھایا گیا ہے‘ مہنگی ہو جائیں گی۔ ایک ایسا ملک جسے صنعت و پیداوار بڑھانے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور درآمدات کا بوجھ کچھ کم ہو‘ اس نے موبائل فون بنانے والے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا ہے۔ زراعت‘ جسے ہم ملکی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ مانتے ہیں‘ کو جدید بنانے کیلئے مشینری کی درآمد میں سہولیات دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئے رجحانات متعارف ہوں‘ پیداوار میں اضافہ اور وسائل کا بہتر استعمال یقینی بنایا جا سکے‘ مگر آئی ایم ایف کا ٹارگٹ پورا کرنے کی دھن میں حکومت نے اس صنعت کو بھی نہیں چھوڑا اور سپلرنکلرز‘ ڈرِپ ایری گیشن اور سپرے پمپس سمیت کئی طرح کی مشینریوں پر جنرل سیلز ٹیکس لاگو کر دیا ہے۔ایک ایسا ملک جو پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے‘ جہاں پانی کے باکفایت استعمال کا رجحان پیدا کرنے کیلئے کام کرنا بہترین قومی مفادات میں ہے‘ وہاں ان اشیا تک رسائی کے لیے حکومت کو اصولی طور پر سہولیات کا اعلان کرنا چاہیے مگر ہماری حکومت چند ارب روپے کے ٹیکس کی خاطر فارمنگ کے جدید وسائل پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور استعمال کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اسی طرح پولٹری کی صنعت ہے جس کی متعدد آئٹمز پر یکساں 17 فیصد جی ایس ٹی سے گوشت اور انڈوں کے نرخوں میں اضافہ ہو گا‘ مگر وزیر خزانہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غریب آدمی کی معاشی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اب حکومت اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی کہ ماچس کی ڈبیا اور آئیوڈین ملے نمک پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔یہ سبھی اشیا‘ تیل پر لیوی کی مد میں ماہانہ چار روپے اضافے کے علاوہ ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنے میں کوئی دیر نہیں کی۔ 12 جنوری سے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس شیڈول ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس سے پہلے یہ نئے ٹیکس لگانے کا کام مکمل کر لیا جائے تاکہ آئی ایم ایف کے ریویو میں کامیابی مل سکے جس سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی راہ ہموار ہو گی۔ ماضی قریب میں ہمارے سرکاری ماہرین معیشت بڑی شدومد سے یہ دلیل دیتے تھے کہ آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ معیشت کا تشخص بہتر ہوگا جس سے مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین میں آسانی رہے گی‘ مگر آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری ملنے کے قریب ایک ماہ بعد بھی ایسی کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔ کہیں سے معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں‘ کوئی نئی سرمایہ کاری نظر نہیں آتی۔ حکومت زبانی جمع خرچ اور جھوٹی تسلیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے اور لاغر معیشت پر محصولات کا بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔اس طرح پاکستان نے معاشی اعتبار سے دنیا کے اس حصے میں خود کو دوسروں سے نمایاں طور پر الگ کر لیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں شرح سود سب سے زیادہ ہے‘ توانائی کے نرخ سب سے زیادہ ہیں اور جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکس سب سے زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے پاس ایسی کوئی کشش نہیں جو خطے کے دیگر ممالک کے بجائے سرمائے کو اپنی جانب کھینچ سکے۔ ہمارے ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں روزگار کے مواقع چاہئیں جبکہ روزگار سرمایہ کاری سے پیدا ہوتے ہیں‘ لیکن اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسی اسی نکتے پر مرکوز ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے ملنے کے بعد دیگر قرض دہندگان عالموں اداروں سے قرض مل سکتے ہیں‘ لہٰذا جیسے بھی ہو آئی ایم ایف کو راضی کرو۔حکومت کی اس پالیسی میں پاکستان کا غریب‘ درمیانی آمدنی والا‘ نوجوان‘ کارخانہ دار‘ دکاندار‘ محنت کش‘ تاجر کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ حکومت عام آدمی کے درد کو محسوس کیے بغیر ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی اور مہنگائی میں اضافہ کیے چلی جا رہی ہے‘ مگر غیر ترقیاتی اخراجات کم کر کے بچت کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں