میرے اندر ایک سمندر

Spread the love

کالم نگار:سید آل محمد
میرے ارض پاکستان میں تمام وفاداروں کا خون شامل ہے اور اس خون کو پہچان کروانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے ہمارے لیے ہر ادارہ قابل احترام ہے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے جب آپ دوسروں کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر چلائیں گے وضاحتیں تو دینی پڑھیں گی آج میرے ملک پاکستان پر جو انسان مسلط کیے جا رہے ہیں جو پیسہ لے کر لیکچر دیتے ہیں اللہ تعالی معافی فرمائے ہم امام مسجد خطیب اور ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھنے والوں کی بات کو غور سے نہیں سنتے اور سمجھتے جو ہماری زندگی کے خوبصورت راستوں کا تعین قرآن و سنت اور احادیث کی روشنی میں کرواتے ہیں۔
پاک سرزمین کی عوام کو اتنا بے بس اور مجبور کر دیا گیا ہے کہ کہ وہ لوگ اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ہر طرح کا زہر پینے کے لیے تیار ہیں چاہے وہ آٹے،چینی،گھی کے بدلے میں اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا کرنا ہی کیوں نہ ہواور وہ لوگ جن کی انتھک محنت اور قربانیوں کی وجہ سے اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا ان لوگوں کو آج کل کی نوجوان نسل کی زندگی سے اور تاریخ کی کتب سے مسخ کیا جا رہا ہے اور اپنے جھوٹے سچے بیانات سے اور تقاریر سے یہ بات ثابت کی جا رہی ہے کہ ترقی صرف یورپین اور مغربی تہذیبوں کا خاصہ ہے چاہے وہ کسی موبائل فون لیپ ٹاپ یا کسی بھی قسم کے جدید آلات کی ایجاد کی صورت میں ہو اور چاہے وہ آزادی اظہار خیالات اور خود مختاری کی صورت میں ہو.
اصل میں ہمارے نظام کو غلاموں کی طرح تقسیم کیا گیا ہے وہ ملک جو 24 کروڑ افراد کی آبادی کا ملک کہلاتا ہے اس ملک کے اندر 22 کروڑ غلام بستے ہیں دو کروڑ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے اداروں کے سربراہان ہیں جن کے بیرون ملک بینک بیلنس بزنس اور جائیدادیں موجود ہیں غلاموں کے پاس سائیکل بھی نہیں اور یہ لوگ روزانہ ہیلی کاپٹر ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہیں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
ہمارے ہاں غریب اور نادار لوگوں کے گھروں میں آٹے چاول اور چینی کی وجہ سے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں چینی کی لڑائی چاول کی لڑائی اور تماشائی بنے سوٹ بوٹ پہنے ہوئے اپنے نوکروں کے ساتھ ہائی کلاس گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگ ان کی غربت اور مفلسی کا تماشہ دیکھتے ہیں جو ماشاءاللہ انہی لوگوں کی دین ہے ارض پاکستان کو جب کبھی بھی کہیں بھی قربانی کی ضرورت پڑتی ہے تو کوئی بھی ادارہ قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتا
میری بات کا غصہ نہیں کرنا۔
میرے گاؤں کے چاروں اطراف طرف خوبصورت پڑھے لکھے اور اعلی اخلاق کے مالک لوگ موجود ہیں وہ لوگ آپنی غربت کا مذاق کبھی نہیں اڑاتے خاموشی سے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو باہر سے آ کر ان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں بدقسمتی ہے میرے گاؤں میں بچوں بہترین صحت، نشو نما اور کھیلوں کو فروغ دینے کے لیےکے چار گراؤنڈز موجود تھی موجودہ حکومت PMLN
اس وقت بھی وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت رکھتی سے برسر اقتدار تھی
جنہوں نے پہلی گراؤنڈ کو قبرستان کی شکل دے دی میرے کہنے کا مطلب وہاں پہ کوارٹر بنا دیئے گئے جن کی اس وقت کوئی ضرورت نہیں تھی
اسی حکومت نے تھوڑا عرصہ پہلے کروڑوں روپیہ لگا کے سول ہاسپٹل کی از سر نو تعمیر کروائی آج اس ہاسپٹل کی حالت زار یہ ہے کہ بارش ہونے کی صورت میں اس ہاسپٹل کو تین تین فٹ پانی کے اندر ڈوبا ہوا دیکھا جا سکتا ہے حیرانی کی بات یہ ہے اور قابل غور بھی ہے کہ اس سارے پروجیکٹ میں ہونے والی کرپشن کے متعلق سوال کرنے کی جرات کوئی بھی نہیں کر سکتا کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے کیوں اس طرح بے دریغ ضائع کیا گیا اس ہاسپٹل کی حالت زار یہ ہے کہ بارش ہونے کی صورت میں ذچہ بچہ کی انتہائی نگہداشت والی یونٹ بھی تین تین فٹ پانی کے نیچے ڈوبی ہوئی ہوتی ہے.
اس کے ساتھ اپنے سیاسی مفادات کو چمکانے کے لیے ہمارے گاؤں سوہدرہ میں ایک سرکاری گرلز کالج کی تعمیر کروائی گئی جس کی اس وقت سیاسی مفاد کی خاطر بنوانے کی کوئی اشد ضرورت نہیں تھی آج صورتحال یہ ہے کہ اس سرکاری گرلز کالج میں صرف 27 اسٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں یہ ناقص سیاسی حکمت عملی کا انجام ہے.
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ کالج قبرستان کی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے اس لیے کامیاب نہیں ہو سکا میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا میرے نزدیک اس کے ذمہ دار وہ بدبخت لوگ ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کو چمکانے کے لیے اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے غریب لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو وقت پر استعمال کیانہ کوئی شرم ہے نہ کوئی حیا ہے ہارے ہوئے اور نہ تسلیم شدہ مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آ کر لوگوں کو جھوٹی 300 یونٹ فری بجلی مہیا کرنے کی تسلیاں اور آٹے چینی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنے کے دلاسے دے کرحکومت کی دوڑ میں شامل ہونے والے عوام کو مفت آٹا چینی کوکنگ آئل کا جانسہ دے کر ان کے سروں پر پٹرول کا ایک نیا بم پھاڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں.
پاکستان کے تمام علاقوں میں انجینیئرز پروفیسرز ڈاکٹرز ٹیچرز مذہبی سکالرز امام اور خطیب موجود ہونے کے باوجود بھی جو لوگ پیسے لے کر لیکچر لوگوں کو سناتے ہیں بلا ان کی باتوں میں کیا اثر ہوگا آج ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعظ امام اور خطیب اپنے خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں اس کا اثر کیوں نہیں ہو رہا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی اب بات یہاں یہ ہے کہ امام مسجد اور خطیب کے وعظ و بیانات سے دینی اور روحانی بھوک تو مٹائی جا سکتی ہے لیکن پیٹ کی بھوک کو کیسے مٹایا جائے اس مقصد کے حصول کے لیے لوگ ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے سود پر قرضہ لینے پر مجبور ہیں حالات کی بے بسی اور غربت نے انہیں لاچار اور مجبور کر دیا ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک میں آنے والی اکثر حکومتیں دوسروں کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر قائم کی جاتی ہیں جو کہ جمہوریت کا حصہ نہیں ہوتی ان حکومتوں میں من مانی کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی منڈیٹ یا کوئی حیثیت نہیں تو کسی بھی وزیراعلی کا یا وزیر کامشیر ہی بن جائیں تاکہ عوام کے دیے گئے ٹیکس کے پیسوں کے ساتھ مختلف منصوبہ جات میں سے اپنا کمیشن حاصل کیا جا سکے.
میرا ملک انتھائی خوبصورت معصوم اور پیارے اداروں کے ساتھ بھرا ہوا ہے اس کو کھانے والی چمچ کے ساتھ بھی کھائیں تو یہ ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز آئیں گے لیکن خدارا آپنے ملک کی آپنے شہروں کی اور آپنے گاؤں کی حفاظت خود کریں ان ظالموں کے سامنے اپنی آواز کو بلند کریں ان کی فضول گفتگو ان کے فضول لیکچر سننے کے بجائے قران و سنت کی روشنی میں اپنے حقوق کا مطالبہ کریں ان کو انکے بھولے ہوئے کام اور منصوبے یاد کروائیں جن کے لیے وہ اپنے نام کی تختیاں تو آویزاں کر گئے ہیں لیکن ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک نہیں پہنچا انشاءاللہ ان کے گریبان قیامت کے روز ہمارے سامنے پکڑے جائیں گے جو لوگ نعوذ باللہ اپنےآپ کو خدائی دعوے کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس طرح نگہبان کا نام دے کےغریب کے ٹیکس کے حقوق استعمال کر کے آپنے والد صاحب کا ٹھیکہ سمجھ کر بوٹے لگانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے بوٹے ان کے لگتے ہیں جن سے اللہ خود لگواتا ہے میری نوجوان نسل کو تعلیم روزگار اور خود مختاری دیں ان کو پتہ چلے کہ ارض پاکستان کی جان ہماری ہے نہ کہ ان کو یہ پتہ چلے یہ پٹواریوں کا ملک ہے۔ قبضہ گروپ سود پہ پلنے والوں کے اداروں کا ملک ہے ہاں میری بات پر غصہ نہیں کرنا۔میرے اندر ایک سمندرسیاسی یتیم چھوٹے چھوٹے کونسلر ہر گاؤں میں بنا دیے ہیں آپ نے ان سے اگر کوئی پوچھے گا تو آٹھ فروری کو الیکشن کے دن کیا ہوا تھا تو بتائیں گے قیدی نمبر 804 جیل میں بیٹھ کر لوگوں کے دلوں پر راج کر گیا تھوڑی دیر کے بعد برائی کریں گے یہ ملک ہی اس طرح کا ہے کیونکہ جنہوں نے یہ ملک بنایا اب انہوں نے کب آ کر اس کو دیکھنا ہےآج وہ اس ملک کے رکھوالے ہیں جن کی ڈیوٹی غریب لوگوں کی حفاظت تھی میری بات کا غصہ نہیں کرنا میرے اندر ایک سمندر جی پوری دنیا کے اندر تمام لوگ اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں اس لیے کہ ان کو تمام حقوق ریاست کی طرف سے حاصل ہوتے ہیں نہ وہ بجلی چور بنتے ہیں نہ پانی چور بنتے ہیں نہ آٹا چور بنتے ہیں نہ روٹی چور بنتے ہیں نہ اداروں کے عام بندوں کے حقوق چوری کرتے ہیں بنیاد تو پاکستان کی بہترین تھی لیکن تمام لیڈروں کو قتل کیا گیا ہے اس نام کے اوپر پر تم کس طرح کے ایماندار ہو
آپ کو مار دینا ہی بہتر ہے ہم آپنا نظام لے کے آئیں گے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ 75 سال سے ان کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے دل پہ ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائیں آپنے پیدا کرنے والے کی پورے ملک سے 27 سیٹیں حاصل کرنے والے
آج حکمران ہیں یا نہیں شرمندہ نہ ہوں سچ بتائیں.
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو صدا سلامت پاکستان تا قیامت پاکستان آباد سلامت رکھےپاکستان ہے تو ہم ہیں یہ ریاست پاکستان نہیں ہے تو ہم بھی نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں