سچے بکرے

Spread the love

چوہدری زاہد حیات۔
سوچا عید قریب ہے منڈی کا چکر لگالوں کوئی سستا بکرا مل گیا تو لےآؤں گا.. ایک جگہ دیکھا چھوٹے بڑے ہر نسل کے بکرے موجود تھے اور وہاں رش بھی تھا تو
میں بھی دیکھنے لگا.. ایک خوبصورت بکرے دیکھ کر میں اس کے قریب گیا اور جیسے ہی اسے چیک کرنے کے لیے ہاتھ لگایا بکرا بدک کر پیچھے ہٹ گیا..
اور بولا
خبردار مجھے ہاتھ لگاکر میری قربانی حرام نا کرنا میں ایک انتہائی شریف اور متقی خاندان کا چشم وچراغ ہوں مجھے صرف کوئی سچا مسلمان ہی ہاتھ لگاسکتا ہے
اور تم تو ایک منافق اور جھوٹے مسلمان ہو.. بکرے کو بولتے دیکھ کر اور اس بھی زیادہ اس کے منہ سے سچ سن کر میں حیرت سے اچھل پڑا.. اوئے چار پائے والے
کمتر جانور تیری کیسی ہمت ہوئی مجھ جیسے پکے مسلمان کے ایمان پر انگلی اٹھانے کی؟؛؛.. میری اس بات پر جو اس کمتر مخلوق نے زبان کھولی اور جو
اس نے میرے پکے ایمان کو “ابالنا” شروع کیا تو خاموشی سے دوسرے بکروں کی طرف بڑھ گیا اور اب میں نے فیصلہ کیا کہ تماشا بننے کی بجائے تماشائی بن جاوں
ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس آدمی بیوپاری سے کہہ رہا تھا.. کوئی اصیل نسل کا بکرا دکھاؤ کیونکہ ہم خود بھی اصیل نسل کے ہیں.. بیوپاری اسے ایک بکرے کے
پاس لےگیا.. صاحب یہ بکرا بالکل اصیل نسل کا ہے لیکن بڑا مہنگا ہے..؛؛؛؛ پیسے کی فکر نا کرو یہ کہتے ہوئے وہ جیسے ہی بکرے کے پاس گیا بکرا پیچھے ہٹ گیا
اور غصے سے بولا.. میرے قریب نا آنا.. مجھے سب پتہ ہے کہ تو جمال نائی کی اولاد ہے اب پیسہ آگیا تو “شاہ” بنا پھرتا ہے.. اصیل بکرے کے منہ سے اصیل سچ سن کر
شاہ صاحب غصے سے لال پیلے ہوگئے اور پاؤں پٹخ کر بکرے کو برا بھلا کہتے ہوئے باہر نکل گئے..اتنے میں ایک آدمی اپنے چار باڈی گارڈ کے ساتھ آیا.. سائیں کوئی
ہمارے جیسا سیاسی بکرا ہے تو دکھاؤ؟؛؛.. بیوپاری اسے ایک تگڑے بکرے کے پاس لےگیا جسے “تمغوں” سے سجایا ہوا تھا اور بڑی بےنیازی سے کھڑا تھا..
سیاستدان کو وہ بکرا بھاگیا..سائیں پیسے بولو کتنے دینے ہیں یہ ہمیں پسند آگیا.. باڈی گارڈ بکرے کی طرف بڑھے تو بکرے نے اپنی نوکیلی سینگ مارکر
انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور سنجیدگی سے کہنے لگا.. تم سیاستدان نہیں بلکہ قصائی ہو جو روزانہ اپنی عوام کو “ذبح” کرکے ان کا گوشت کھاتے ہو..
سیاستدان تو میں ہوں جو اپنی عوام کے ساتھ خود بھی ذبح ہونے آگیا ہوں ان کے ہر دکھ میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں کبھی تم نے اپنے آپ کو ذبح کیا ہے؟؛؛
سیاستدان کو غصہ آگیا جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی.. بیوپاری کو دی.. باڈی گارڈ سے ریوالور لیا اور سیاستدان بکرے کو گولی مار کر باہر چلاگیا..
.. .. کچھ دیر بعد ایک “مریل” سا آدمی آیا بیوپاری سے بولا.. مجھے کوئی
عوامی بکرا دکھاؤ.. بیوپاری اسے ایک تندرست وتوانا بکرے کے پاس لےگیا.. مریل آدمی نے صحت مند عوامی بکرا دیکھا تو بڑا حیران ہوا.. اور اسے ہاتھ لگانے کے لئے
جیسے ہی قریب گیا بکرا غصے سے بولا.. مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش بھی نہیں کرنا.. مجھے دیکھو اور اپنے آپ کو دیکھو تمہارے جیسا مریل عوام نہیں ہوسکتا
بلکہ عوام تو مجھ جیسے “تگڑے” ہوتے ہیں.. مریل انسان اپنی صفائی پیش کرنے لگا اور سارا قصور حکمرانوں پر ڈالنے لگا.. بکرا غصے سے بھڑک گیا اور
ایک زوردار سینگ ماری مریل انسان نیچے گرکر “کراہنے” لگا یار تم کیسے عوامی بکرے ہو جو عوام کو ہی سینگ ماررہے ہو؟؛؛؛.. بکرا غصے سے بولا..
سارا قصور تمہارا ہی ہے جو اس حال کو پہنچے ہو.. اپنی بیٹی کی شادی کرتے وقت لڑکے کو اچھی طرح چیک کرتے ہو کہ کہیں وہ کسی عیب فعل میں تو نہیں
کردار کا کیسا ہے.. تمہاری بیٹی سے وفادار رہے گا کہ نہیں.. اور اس کے مقابلے میں اپنی پانچ سال کی قسمت کا فیصلہ صرف ان کی حسین تقریروں اور جھوٹے
وعدے سن کر دیدیتے ہو اور بار بار آزمانے کے باوجود بھی تمہیں عقل نہیں آئی.. تم عوام نہیں بلکہ بیوقوف ہو تو جاؤ اپنے لیے کوئی بیوقوف بکرا دیکھو..
ان سچے بکروں نے تو مجھے بھاگنے پر مجبور کر دیا
مریل آدمی بھی بھاگا کیوں کہ عوامی بکرا اس کو شاہد ہوش اور شعور دینا چاہ رہا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں