کھیوڑہ (راشدخان،نمائندہ خصوصی)
سپریم کورٹ کے جج صاحبان یوٹیوب کی بندش جیسے بڑے فیصلے سے قبل ہماری
گزارشات بھی سن لیں۔ ہر چیز کا منفی اور مثبت رخ ہوتا ہے یہ معاملہ
انسانوں کے ساتھ ہے اس میں مشین اورٹیکنالوجی کا کیا قصور ہے؟؟
حمادصافی
ہم پہلی بار فری لانسنگ کی دنیا میں چوتھے نمبر پر موجود ہے جس کا مطلب
ہے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی نوجوانوں کے توسط سے ملک کی معیشت کو
مضبوط سہارا میسر آیاہے
ہمیں بجائے علم کے خزانوں کو بند کرنے کے پی ٹی اے اور ایف ائی اے جیسے
اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ ان کالی بھیڑوں کو پکڑیں جو انٹرنیٹ کا
غلط استعمال کر رہے ہیں
تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی شہرت کے حامل سوشل ایکٹویسٹ،موڑیویشنل
سپیکر،اور ننھے پروفیسر کے نام سے پہچانے جانے والے حماد صافی نے اپنے
ایک حالیہ بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے میری انتہائی
مؤدبانہ گزارش ہوگی کہ یہ غیر معمولی اور حساس فیصلہ کرنے سے پہلے
پاکستان کے نوجوانوں کے لئے جاری تمام ای پروجیکٹس کو بھی مدنظر رکھیں
پاکستان اس وقت پہلی بار فری لانسنگ کی دنیا میں چوتھے نمبر پر موجود ہے
جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسا غریب اور ترقی پذیر ملک ستر سالہ
تاریخ میں پہلی بار اپنے نوجوانوں کے توسط سے بے پناہ ڈالرز کی شکل میں
ملک کی معیشت کو مضبوط سہارا دے رہے ہیں اور جن ممالک کی مثال دی جا رہی
ہیں کہ وہاں یوٹیوبب بند ہے تو میں یہ ضرور کہنا چاہونگا کہ ان ممالک کی
عوام انتہائی خوش حال اور ریاستی سطح پر انکی ہرقسم کی بنیادی ضرورتوں
کو پورا کیا جاتا ہے ہمارے یہاں تو بے روزگاری اور غربت کی عفریت ہے جنکی
وجہ سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہے.ہمیں بجائے علم کے خزانوں کو بند
کرنے کے پی ٹی اے اور ایف ائی اے جیسے اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ
وہ پھر ان کالی بھیڑوں کو پکڑے جو انٹرنیٹ کا غلط استعمال کر رہے ہیں میں
یہاں پھر کہنا چاہونگا کہ پاکستان یورپ نہیں ہے یہاں آپکے غریب گھرانوں
سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعلیم اور روزی روٹی کا دارو مدار انٹرنیٹ سے
وابستہ ہے اگر اپ انٹرنیٹ سے یوٹیوب کو صرف اس منفی استعمال کی وجہ سے
نکالتے ہیں تو پھر اپ فیس بک اور ٹویٹر کو کہاں رکھیں گے. میں نے اپنے ہر
سیشن میں اسی بات پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ ہر چیز کا منفی اور مثبت رخ
ہوتا ہے یہ معاملہ انسانوں کے ساتھ ہے اس میں مشین اورٹیکنالوجی کا کیا
قصور ہے. اگر مشین کسی اچھے انسان کے ہاتھوں میں ہوگی تو وہ اسکا اچھا
استعمال کریگی اور اگر برے انسان کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ ریاستی اداروں
کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کے منفی عناصر کا بہترین علاج کریں ابھی
پچھلے دنوں ہندوستان نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جس سے تقریبا پچاس کروڑ
لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے. جس پر تاحال ابھی تک سخت احتجاج ہو رہے ہیں.
اب یہاں ٹک ٹاک اور یوٹیوب میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے. ٹک ٹاک کا
استعمال زیادہ تر نوجوان منفی کرتے ہیں جس سے معاشرے پر برے اثرات پڑتے
ہیں مگر پھر وہی بات کہ مثبت استعمال والے بھی تو موجود ہے. ٹک ٹاک ایک
شغل میلہ ہے جبکہ یوٹیوب اس وقت ویڈیو انفارمیشن کے حوالے سے دنیا کی سب
سے بڑی سرچ انجن ہے.یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ ہندوستان کی حکومت نے ٹک
ٹاک صرف اس وجہ سے بند کیا کیونکہ انکے زمین کا مسلہ چائنا کے ساتھ چل
رہا تھا. زمین تو انہوں نے چائنا سے نہیں لی مگر اپنی عوام کو جھٹکا دیکر
تکلیف میں ضرور ڈالا. یہ وہ غلط پالیسیاں ہے جو ایشیائی ممالک میں دیکھنے
کو روز ملتی ہے. یہی وجہ ہے کہ اس پورے ریجن کے لوگ بد قسمت اور غریب
ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ اول تو کسی بھی ایپ کو ملک کے اندر آنے کی اجازت
نہ دیں لیکن اگر آپکی آنکھوں کے سامنے ایک چیز آجاتی ہے اور معاملہ اس
حد تک پہنچ جاتا ہے کہ آپکے ملک کی بڑی اکثریت ایک ایپ کو استعمال کرنے
لگ جائے تو پھر اسکو بند کرنا سراسر ظلم و انصافی پر مبنی ہوگی. میں ایک
بار پھر کہتا ہوں کہ ٹک ٹاک یوٹیوب نہیں ہے اور یہ بھی کہتا ہوں کہ مشین
اور ایپس کی بھی غلطی نہیں ہے. غلطی صرف ہماری ہے کہ ہم لوگ ایک ایسے خطے
پر رہتے ہیں جہاں ہر مثبت سائنسی انقلاب کا غلط استعمال کیا جاتا ہے.
مجھے یہ خبر سن کر شدید افسوس ہوا کیونکہ میں پچھلے کئی دنوں سے مختلف
خاندانوں کی روزی روٹی انٹرنیٹ سے کمانے کی جدوجہد میں تھا انکو روز
لائیو تعلیم دے رہا تھا کہ انٹرنیٹ کا استعمال رزق کمانے کے لئے کیسے
کرنا ہے. اس وقت پورے ملک میں معلوم نہیں کتنے ہزار گھرانوں کے چولہے اس
بین الاقوامی سہولت سے جل رہے ہیں کیا ہم اب اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ
بجائے اپنی کمزوریوں کو ٹھیک کرنے اور دنیا کی تیز رفتار ترقی کا مقابلہ
کرنے الٹا اپنی قوم کو پتھروں کے دور میں پھینکیں گے. میں میڈیا سے بھی
درخواست کرنا چاہونگا کہ اس قسم کی خبریں نہ دیں جس سے پھر اپ کے نوجوان
ناامید اور مایوس ہوکر اس پاک دھرتی سے بھاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں.
ہمارے لوگوں کا حال پردیس میں سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس قسم کی جہنم
والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. کیا ان لوگوں کے دلوں میں یہ خواب نہیں
ہوگا کہ وہ اپنے ملک کے اندر محنت کریں کیا وہ پاکستان کو ترقی یافتہ
بننے کا خواب نہیں دیکھتے بلا شک و شبہ آخرت میں ہم سب کو اللہ کے سامنے
جواب دہ ہونا پڑے گا. یہ پاکستان ہمارے پاس امانت ہے ہمیں اس کا خیال
رکھنا ہے اسکی تعمیر و ترقی کے لئے ہر ممکن حد تک جانا ہے. عوام کی فلاح
و بہبود کے لئے کام کرنا بہترین خدمت خلق ہے جس سے پھر انسان خدا تک پہیچ
جاتا ہے. مجھے امید نہیں یقین ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ اپنے ملک و قوم کے
نوجوانوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے گی