وزیرآباد(نامہ نگار)ڈسٹرکٹ وزیرآباد میں موجود چھوٹے بڑے قصبات سمیت سٹی وزیرآباد،سٹی علی پورچٹھہ میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا میں بدل چکا ہے اور ایک منظم مضبوط نیٹ ورک جنیں پنجابی زبان میں کونتہ کہتے ہیں ان گداگروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے۔اس کونتہ نیٹ ورک کے افراد اپنے لوگوں کو مختلف جگہوں پہ کھڑے کرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کی جا رہی ہوتی ہے،اور تو اور یہ جگہیں کرائے پہ دی جاتی ہیں اور ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ اس کی جگہ پہ دوسرا بھکاری نہیں کھڑا ہوسکتا اور ساتھ ساتھ بھیک مانگنے کے اوقات کار بھی متعین ہوتے ہیں۔اس گداگر مافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے اس کو اتنے ہی پوش علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے۔ اگر ان کی کمائی کی بات کریں تو اہم مقامات یا شاہراہوں پر بیٹھنے والے پیشہ ور بھکاری اوسطا-10 ہزار روزانہ کماتے ہیں۔ ان گداگروں کی تعداد کےحوالے سے کوئی مستند اعدادوشمار تو نہیں ہیں، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد 1 کروڑ سے 2٫5 کروڑ کے درمیان ہے ۔ پیشہ ور بھکاری مختلف حربے اپناتے ہوئے اپنی معذوری ، محتاجگی یا بیماری کا راگ الاپتے ہوئے اور اللہ رسول کے واسطے دیتے ہوئے کمال اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں(خاص طور پر خواتین کیوں کہ وہ نرم دل ہوتی ہیں)کوجذباتی کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے کا اصل حق دار اور سفید پوش طبقہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ غربت، افلاس، بےروزگاری، بیماری، ذہنی و جسمانی معذوری، قدرتی آفات اور جنگیں عام طور پر گداگری کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غربت گداگری کی بنیادی وجہ ہے اور اگر گداگری کو ختم کرنا ہے تو غربت کو ختم کرنا ہوگا۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سات کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن اس غربت کی بنیادی وجہ تیسری دنیا کا بدترین سرمایہ دارانہ نظام ہےکہ جس میں محنت کی صحیح اجرت نہیں ملتی۔ بدقسمتی سے اس پر کوئی سروے نہیں یا شاید میر ے .ناقص مطالعہ سے نہیں گزرا۔
