ہم کہاں کھڑے ہیں .

Spread the love

احتجاج ختم ہو گیا ۔ سب لوگ گھروں کو چلے گئے ۔ لیکن کچھ بدنصیب ایسے تھے جو قبروں میں چلے گئے ۔ ان کے بچے منتظر ہوں گے کہ ابو کب گھر آئیں گے ؟
جواب ملے گا کبھی نہیں ۔
وہ بچے اب تاعمر یتیمی کی زندگی بسر کریں گے ۔
کیسی جنگ تھی یہ ؟
کس کے مفادات کی جنگ تھی یہ ؟
کیا یہ دین اسلام کی سربلندی کی جنگ تھی ؟
یا یہ پاکستان کی بقا کی جنگ تھی ؟
جی نہیں ۔
یہ چند کرپٹ سیاستدانوں کا آپس کا جھگڑا ہے ۔
یہ ہمیں لوٹنے کی باری لینے والوں کی آپسی لڑائی ہے ۔
یہ اس کرسی کی جنگ ہے جس پر بیٹھ کر ایک شخص کو 24 کروڑ عوام کو پانچ سال تک لوٹنے کا موقع مہیا کیا جاتا ہے ۔
نہ تو عمران خان کے دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں نہ ہی شہباز شریف نے معاشرے کو جنت بنا دیا ہے ۔
ہر بندہ آکر ایک ہی بات کرتا ہے ۔
“قوم مشکل حالات سے گزر رہی ہے ۔ قربانیاں دینی ہوں گی ۔ پھر اچھا وقت آئے گا ۔”
یہ چند جملے سنتے سنتے بڈھے ہو گئے ہم ۔ سیاستدان قرضے لے لے کر عیاشیاں کرتے رہے اور قوم قربانیاں دیتی رہی ۔
سیاستدان امیر سے امیر ترین ہوتے گئے اور قوم غریب سے غریب ترین ہوتی گئی ۔
اچھا وقت صرف اس کا آیا جسے عہدہ مل گیا ۔
قوم نے سڑکوں پر ڈنڈے کھائے ۔ جانیں دیں ۔
ملک کی خاطر نہیں ۔ دین کی خاطر نہیں ۔
ایک شخص کی خاطر جو بس ایک کرسی پر پانچ سال بیٹھ کر قوم کو لوٹنا چاہتا ہے ۔
رحم کریں اپنے بچوں پر ۔
جمہوریت صرف ان قوموں کے لیئے اچھی ہے جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ جن کے پاس اللہ کا قانون نہیں ہے ۔ وہ جو بھی قانون باہمی رضامندی سے بنائیں انہیں فرق نہیں پڑتا ۔
ہمارے پاس اللہ کا قانون ہے ۔ ہم نے وہی نافذ کرنا ہے ۔ لیکن وہ جمہوریت سے کبھی بھی نہیں آسکتا ۔ دس میں سے نو لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اللہ کا قانون نافذ ہو ۔
اپنی جان دیں کسی مقصد کی خاطر ۔ آپ کے بچے یتیم ہوں تو ایسے کہ آپ ان کے لیئے باپ جیسی ریاست چھوڑ کر جائیں ۔
زندگی کسی مقصد کو دیں ۔ جان بھی کسی مقصد کی خاطر قربان کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں