تحریر ملک بشیر احمد مندوانی رند:
کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے اپنی بادشاہت میں یہ اعلان کر رکھا تھا کے جو شخص پانی کی بہت بڑی ندی میں ماہ دسمبر اور جنوری کی سرد رات میں ساری رات اس ندی کی پانی میں گزارے گا اگر وه زندہ سلامت اس نے ساری رات ندی میں گزار دی تو اس شخص سے میں اپنی بیٹی بیاہ دوں گا
واضح ہو وه ندی جس شہر میں واقح تھی وه بہت سرد علاقہ تھا کہی لوگ اہے اور اس سخت یخ بستہ جسم کے خون کو جمانے والی سردی میں اللّه کو پیارے ہو گے
جسكی وجہ سے لوگوں میں خوف پھیل گیا اور اس شرط سے لوگ گھبرانے لگے ہر انسسان کو اپنی موت نظر انے لگتی اور اس طرح کافی وقت گزر گیا اور کوئی بھی انسان بادشاہ کے حضور پیش نہ ہوا کے وه سرد رات کو ندی کے ٹھنڈے پانی میں ساری رات گزار کر شہزادی کو اپنا بنا سکے ایک دن ایک غریب شخص بادشاہ سلامت کے حضور پیش ہوا اور عرض کیا بادشاہ سلامت میں اپکی شرط قبول کرتا ہوں اور میں آج رات اپکی منتخیب کردہ ندی میں ساری رات گزارنےکو تیار ہوں پر آپ اپنا وعدہ ضرور پورا کریں اگر میں زندہ بچ گیا بادشاہ نے کھا یہ میرا قول ھے میں اس پر قایم ہوں رات کے قریب اس شخص کو بادشاہ کے سپاہی ندی کے قریب لاے اور اور اس شخص کو پانی میں بیٹھا کر خود کچھ دور ندی کے کنارے بیٹھ گے اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے جب دن نکلا سورج کی روشنی میں انہیں وه شخص نظر آیا جو ابھی تک ندی کے درمیان ٹھنڈے پانی میں موجود تھا سپایوں نے اس شخص کو ندی سے باہر نکالا سکا جسم سردی کی وجہ سے اکھڑا ہوا
تھا حیرت کی بات یہ تھی اس شخص کی سانسیں ہلکی ہلکی چل رہی تھیں وه زندہ بچ گیا تھا اسے دھوپ میں لٹایا گیا گرم کمبل سے لپیٹا گیا یہ بادشاہ سلامتےسپایوںے انسانی ہمدردی کی بنا پر کیا کے وه بادشاہ کی اس شرط سے بہت نالاں تھے کے کہی غریب انسانوں کی جانیں چلی گی تھیں اس شخص کو بادشاہ سلامت کے دربار میں پیش کیا گیا جو چلنے سے بھی معذور ہو گیا تھا بادشاہ اس شخص کو زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا اسکو یقین نہیں آرہا تھا کے یہ شخص زندہ سلامت بچ گیا ھے بادشاہ نے اپنے سپایوں سے پوچھا کے کیا تم لوگوں کو یقین ھے اس شخص نے ساری رات پانی میں گزارا سپایوں نے کہا جی حضور ہم نے ساری رات جاگ کر گزارہ یہ پانی میں ہی رہا بادشاہ حیران تھا اس نے اس شخص سے پوچھا اے اجنبی تم نے ساری رات ندی میں کیسے گزاری اور تم کیسے زندہ بچ گے
اجنبی نے کھا میں زندہ کیسے بچہ یہ مجھے علم نہیں لیکن اتنا یقین ھے کے مجھے میرے رب نے سلامت ر رکھا اور میں آج آپکے سامنے ہوں بادشاہ نے پوچھا رات کیسے گزاری ساری تفصیل بتا ہو اجنبی شخص نے کھا ندی کے سامنے ایک بہت بڑی پہاڑی تھی جسكی چوٹی سے ایک روشنی ٹم ٹما رہی تھی مجھے ایسا لگا کے وہاں اگ جل رہی ھے میں نے ساری رات اس روشنی کو دیکھتے گزار دی کے اس تصور میں یہ اگ میرے قریب جل رہی ھے اور مجھے تپش مل ررہی ھے اس طرح صبح ہو گی اور میں اب آپکے سامنے زندہ کھڑا ہوں بادشاہ سلامت کو غصہ اگیا اور اس نے اپنے سپایوں کو حکم دیا کے اس اجنبی کی گرفتار کیا جاۓ اور اسکو زندان میں ڈال دیا جاۓ اس نے میرے حکم عدولی کھے س شخص نے ساری رات اگ کی تپش لی ھے اس لے اس نے خلاف ورزی کی ھے یہ سزا کا حقدار ھے سبی کا گیسس لبے لباب یہ رہا کے سبی کو گیس نہیں دی جاری چھولے ٹھنڈے پڑے ہیں اور ان ٹھنڈے چھولوں کی تپش سے سبی کے لوگ اس سخت سردیوں میں گزارہ کر رھے ہیں صبح کا ناشتہ ۔۔دوپہر کی روٹی سالن ۔رات کا کھانہ ۔غسل کرنے کے لیے گرم پانی۔نماز کے وضو کا گرم پانی ۔سخت سردی میں کمرے کو گرم کرنے کے لیے ہیٹر جو کے بچوں کے لیے بے حد ضروری ھے ۔۔لوگوں کے گیزر جو زنگ آلود ہو رھے ہیں اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں ہمیں بھی اس اجنبی شخص کی طرح بہت دور سے گیس کے ہیٹر کی تپش لگ رہی ھے اگر سبی کو گیس نہیں دینا تویہ گیس آفس بند کر دو کس مرض کے لیے یہ گیس آفس کھلا ہوا ھے سبی میں گیس کی اتنی کھپت بھی نہیں نہ کارخانے نہ فیکٹری وغیرہ نہ اتنا گھریلو استمال ہوتا ھے جبکہ جن علاقوں میں گیس زیادہ خرچ ہوتا ھے وہاں گیس دن رات موجود ھے جبکہ سبی میں شدید لوڈ شیڈنگ کی جاری ھے 24 گھنٹہ میں صرف 4 گھنٹہ گیس دیا جا رہا جبکہ کہی علاقوں میں تو بلکل ہی گیس نہیں ٹی ٹی سی کالونی سے لیکر اگے گیس کا کنکشن کاٹ دیا گیا سات مرلہ گلو شہر جدید ۔ گلو شہر قدیم لونی گاؤں اس طرف گیس کا کنکشن ختم کر دیا گیا ظلم تو یہ ھے کے ہر ماہ ان علاقوں کے لوگوں کوبھاری بھرکم گیس کے بل با قاہدگی سے آرہے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راجہ والی مثال اس بات پر صادق آتی ھے سبی شہر اور اسکے اس پاس کے گاؤں کو گیس نہ دینا اسکا کوئی بھی مثبت جواب نہیں دیتا لیکن بہت تنگ ہیں فیملی تنگ ہیں سب پریشان ہیں . لیکن احساس کسی کو بھی نہیں جبکہ سبی والوں کی اس سلسلہ میں خاموشی سمجھ سے بالا تر ھے کے وه سوشل میڈیا پر کیوں آواز بلند نہیں کرتے ایسا کیوں کر ہو رہا ھے جو ہماری سمجھ سے یہ بات بالا تر ھے