مانچسٹر(وقائع نگار خصوصی) پریس کلب آف پاکستان یوکے کے سابق صدرشکیل قمر نےپاکستانی نژاد امریکہ کے ممتاز صحافی ارشد محمود چودھری کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے،انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ارشد چودھری سے یاد اللہ تو ساہیوال سے ہی تھی،جہاں ہم سب دوست ادب و صحافت سے وابسطہ تھے،میں، آئیون راجکما، ارشد محمود یاسر،جاوید کنول، اور بہت سے دوسرے دوست بس صحافی تھے،ہر کوئی بہتر مستقبل کے لئے سرگرداں تھا، میں 1980ء میں ہالینڈ چلا گیا جہاں میں نے ہالینڈ کا سفر نامہ”پھولوں کا دیس” تحریر کیا جلد ہی میں واپس ساہیوال آگیا،ارشدمحمود یاسر اور وقاص بٹ مجھے ملنے آئے، ارشد ناراض ہونے لگا،اس کا کہنا تھا کہ واپس کیوں آئے ہو،وہاں ہی رک جانا تھا،یہاں کیا رکھا ہے،ٹھوکریں کھانے کے سوا،ارشد کہنے لگا تم اور جاوید کنول کبھی نہیں سدھرو گے، کیونکہ جاوید کنول بھی یونیسکو کے اجلاس میں شرکت کے لئے پیرس(فرانس)گیا تھا، ہمارا خیال تھا کہ جاوید کنول پیرس میں پھسل جائے گا مگر وہ تو یونیسکو کااجلاس ختم ہوتے ہی کھوٹے سکے کی طرح واپس آگیا،ارشدمحمود یاسر نے کہا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں کبھی واپس نہیں آوں گا،تھوڑے عرصے کے بعد میں برطانیہ آگیا1985ءمیں ارشد محمود یاسر مجھے مانچسٹر میں ملا،مگر اب وہ ارشد چودھری ہو چکا تھا،اس کی اگلی منزل امریکہ تھی،میں نے بہت سمجھایا کہ برطانیہ پہنچ چکے ہو یہیں رک جاو،مگر وہ تو بضد تھا کہ امریکہ ہی جاوں گا،بہر حال وہ امریکہ پہنچ گیا،اس کے بعد فون پر بہت زیادہ باتیں ہوتی رہیں،اس نے بتایا کہ عارف چودھری(اب مشہور ایڈووکیٹ اسلام آباد ہائی کورٹ)بھی امریکہ آگیا ہے،ارشد نے بتایا کہ سلیم حیدر شاہ(امامیہ کالج ) بھی امریکہ میں ہیں،اور بہت سے دوستوں کےبارے میں بھی بتایا کہ وہ بھی امریکہ میں ہیں، میں نےارشد کو بتایا کہ وقاص بٹ بھی ہالینڈ آگیا ہےمجھے یہ خبر ارشد نے ہی دی تھی کہ جاوید کنول فیملی کے ہمراہ اٹلی پہنچ گیا ہے،اسی طرح فون پر باتیں ہوتی رہیں، ایک دن ارشد نے بتایا کہ سلیم حیدر شاہ فوت ہو گیا ہے ،میں نے اسے بتایا کہ جاوید کنول مانچسٹر آگیا ہے اور اب وہ ڈاکٹر جاوید کنول ہو گیا ہے، ارشد نے غصے سے مجھے کہا کہ تم بس صرف شکیل قمر ہی رہنا اس سے آگے نہ بڑھنا وہ چاہتا تھا کہ میں بھی فردر پڑھائی کےلئے امریکہ آجاوں،مگر میں نے کبھی امریکہ جانے کے بارے میں نہیں سوچا،لب لباب یہ کہ گزشتہ دنوں میں نے ارشد چودھری کو فون پر اطلاع دی کہ ڈاکٹر جاوید کنول کینسر میں مبتلا ہو گیا ہے اور ایک ضروری آپریشن کے لئے اٹلی گیا ہے،مگر اگلی خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر جاوید کنول اٹلی میں وفات پاگیا ہے، ارشد چودھری نے فون پر بہت افسوس کیا اور مجھے کہا کہ ڈاکٹر جاوید کنول کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری بنا کر مجھے بھیجو تاکہ میں اپنے نیوز چینل پر چلا سکوں،ابھی ڈاکٹر جاوید کنول کا غم ہمیں بھولا نہیں تھا کہ امریکہ سے ارشد چودھری کے دیرینہ صحافی دوست طاہر چودھری کا میسج موصول ہوا کہ ارشد چودھری کرونا میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہے،وینٹیلیٹر پر ہے اور حالت تشویش ناک ہے،میں نے طاہر چودھری سے کہا کہ مجھے ارشد چودھری کی خیریت سے مطلع کرتے رہنا،دریں اثناء میں نے ارشد چودھری کی جلد صحت یابی کے لئے دوستوں سے دعا کی اپیل کی اور سوشل میڈیا پر خبریں بھی لگائیں،مگر اگلے ہی دن طاہر چودھری کا پیغام موصول ہوا کہ ارشد چودھری کا انتقال ہو گیا ہے،اور اس کی باڈی ساہیوال بھیجی جا رہی ہے،میں نے صدمے سے سر جھکالیا اور منہ میں بڑبڑایا ” یار ارشد اب تو ہم سدھر چکے تھے”مگرتمہیں اتنی جلدی کیا تھی۔
