بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
برنیج اکیڈمی فار بوائز ( رپورٹ صابرہ ناہید مانچسٹر ) کی نامور استاد تحمینہ خان جو کہ سکول کے سینکڑوں طلباء کے دلوں کی دھڑکن تھیں۔ اپنی خوش اخلاقی اور شاگردوں کے ساتھ دوستانہ روئیے کی وجہ سے بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں سینکڑوں طلبہ اور ان کے والدین کو افسردہ کر گئیں۔ آج یر آنکھ ان کے جانے سے اشکبار تھی اور ان کے سفر آخرت کے لئے دعا گو تھی ۔
وہ ایک اچھی استاد ، ایک اچھی ماں ، ہمدردانہ رویہ رکھنے والی اور ایک اچھی دوست تھیں ۔ جہاں بھی بیٹھتیں لوگوں کا دل موہ لیتیں ۔ بچوں کے ساتھ بچی اور بڑوں کی محفل میں بڑی ہوتی تھیں ۔ جو بھی ان سے پہلی دفعہ ملتا وہ یہ ہی سمجھتا کہ وہ ان ہی کی ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ دکھی انسانیت کی مدد کی۔ بہت سے اجھرے گھروں کو بسانے کی کوشش کی۔ بہت سے ایسے طلبہ جو کہ والدین کی گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے بےراہ روی کا شکار ہو چکے تھے انھیں رستے پر چلانے میں مدد کی۔ ان کے اپنے شاگردوں کا کہنا ہے کہ اگر مس خان ہماری راہنمائی نہ کرتیں تو ہم شائد آج ڈاکٹر ، انجینئر ، فارمسسٹ یا استاد نہ ہوتے بلکہ ڈرگی یا بے راہ رو پھر رہے یوتے ۔ انھوں نے طلبا اور والدین کو مصروف رکھنے کے لئے سکول کے باہر کئی قسم کی ایکٹیویٹیز جاری رکھیں جس میں سکول کے بعد ورزش ، ای سول کی کلاسسز ، جن ماؤں کی انگش کمزور تھی ان کے لئے کلاسسز کمزور اردو والوں کے لئے اردو کی کلاسسز کا انتظام کیا ۔ گرائمر سکول میں وظیفہ حاصل کرنے کے لئے 11 پلس کی تیاری کے لئے والدین کی مدد کی اور ان سے تعلیم حاصل کرنے والے تقریباً سو فیصد بچے اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کر کے گرائمر سکولوں میں داخلہ حاصل کرتے۔ ان کا سب سے اہم کام ریفیوجی بچوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے مثلاؒ عراق جیسے ممالک سے آۓ ہوۓ بچوں کے ساتھ جو کہ اپنی ماؤں کو کھو چکے تھے ان میں خود اعتمادی پیدا کرنا ۔بچوں کے لئے مختلف سٹیج پروگرام، فیشن شو اور دیگر پروگرام کرانا تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو ۔
برنیج اکیڈیمی فار بوائز کے سابقہ ہیڈ ٹیچر مسٹر فن نے مس خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا کہ وہ ایک با اخلاق ، باوقار ، کام کرنے میں دلچسپی رکھنے والی ۔بچوں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھنے والی ۔ تمام اساتذہ کے ساتھ با اخلاق اور ہر کسی کے دکھ سکھ کی ساتھی تھیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے یاد رکھی جائیں گی ۔ ان کے سٹوڈنٹس محمد علی ، علی الیاس ، عبدالرحمن ،تنزیل اور دیگر کا کہنا تھا کہ آج ہم لوگ جس مقام پر کھڑے ہیں وہ مس تحمینہ خان کی وجہ سے ہیں انھوں نے نہ صرف ایک استاد بلکہ ایک ماں کی طرح ہماری تربیت کی وہ ایک بہترین استاد تھیں جنھیں ہم کبھی بلا نہیں سکیں گے ۔ مس خان کی علالت کے دوران اکثر و بیشتر ان کے شاگرد ان کے گھر چلے جاتے اور کئی کئی گنٹھے ان سے خوش گپیئوں میں مصروف رہتے اور طنز و مزاح کا سلسلہ جاری رہتا ۔
میری ملاقات تحمینہ سےاس وقت ہوئی جب میرا بیٹا محمد علی ھائی سکول میں گیا اور اس کی پہلی پیرینٹس ایویئنگ ہوئی اور اس وقت سے یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور ہم دونوں ایک دوسر کے دکھ سکھ کے ساتھی بن گئے اور انھوں نے محمد علی کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھا ہر طرح سے اس کی راہنمائی کی۔ وہ بہت ہی قناعت پسند تھیں ہر حالت میں اللہ کی رضا پر راضی تھیں ۔ انھوں نے دس سال کی علالت میں کبھی حوصلہ نہ چھوڑا بلکہ ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ وہ ہے نا جس نے تکلیف دی وہ ہی مدد کرنے والا ہے ۔ دو اوپن ہارٹ سرجریز ہونے کے باوجود سکول جاتی رہیں یہاں تک کہ جب ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا کہ اب کچھ ہفتوں تک زندہ رہیں گئیں پھر بھی بہادری کا مظاہرہ کیا اور اللہ پر شاکر رہیں اور اس میں مزید 3 سے 4 سال زندہ رہیں ان کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ میرا اور اوپر والے کا ایک خاص تعلق ہے جس کی وجہ سے مجھے ان پر بھروسہ ہے۔
۔انہوں نے پاکستان سے گریجویشن کیا ۔ آٹھارہ سال کی عمر شادی ہو ئی ۔ دو بچوں کے بعد انگلینڈ چلی آئیں انگلینڈ آ کر انھوں نے مانچسٹر یونیورسٹی سے بہرے لوگوں کی تعلیم کے لئے ڈپلومہ کیا۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے Audology میں ماسٹرز کیا اور رائل انفرمری ہسپتال میں Audiologist کے طور پر کچھ عرصہ کام کیا مگر اس جاب کے دوران وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہ دے پاتی تھیں لہزا انھوں نے مانچسٹر یونیورسٹی سے Special Educational Needs میں ماسٹرز کیا۔ مانچسٹر میٹرو پولیٹن یونیورسٹی سے ( GTP ) کیا اور برنیج ھائی سکول میں پڑھانے لگیں اور مانچسٹر میٹرو پولیٹن یونیورسٹی یوکے سے SENCO کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیٹا دانیال اور ایک بیٹی سارہ چھوڑی ۔ ان کے وقت آخر پر ان کی دو بہنیں ثمیہ اور فوزیہ پاکستان سے پہنچیں اور ان کے بھائی عمر سکاٹ لینڈ سے پہنچے ۔ مس خان کے شاگردوں ، فیملی ممبروں اور دوستوں نے اشکبار آنکھوں سے انھیں سپرد خاک کیا۔ اللہ مس خان کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی منزلیں آسان فرماۓ آمین۔