مسلمان دنیا بھر میں ایک عظیم تاریخ، شاندار ثقافت اور بے مثال ورثے کے حامل رہے ہیں، مگر آج ان کی مجموعی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے کے باوجود، خاص طور پر برطانیہ جیسے ملک میں، مسلمان بہت سی معاشرتی، معاشی اور مذہبی الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ یہ مضمون ان مسائل کا تجزیہ کرے گا اور ان کے ممکنہ حل پر روشنی ڈالے گا۔
1. بدعنوانی اور فراڈ: ایک خطرناک رجحان
برطانیہ میں کچھ پاکستانی اور دیگر مسلم پس منظر رکھنے والے افراد بدعنوانی، دھوکہ دہی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پوری برادری پر ایک منفی تاثر قائم ہو گیا ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف مسلمانوں کے لیے بدنامی کا باعث ہے بلکہ اس سے ان کی روزگار کے مواقع، ساکھ اور قانونی حیثیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ حالانکہ اسلام دیانت داری، ایمانداری اور شفافیت کی تلقین کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے کچھ افراد ان اصولوں سے روگردانی کر کے پوری قوم کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ مسلمانوں کو خود احتسابی کی روش اپنانی چاہیے اور اپنی نئی نسل کو اعلیٰ اخلاقی اقدار پر کاربند رکھنے کے لیے تربیت دینی چاہیے۔
2. مذہبی انتشار اور سائنسی ترقی سے دوری
برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں، جہاں جدید سائنسی ٹیکنالوجی ہر معاملے میں رہنمائی فراہم کر سکتی ہے، وہاں چاند دیکھنے جیسے مسائل پر ابہام حیران کن ہے۔ کچھ لوگ سعودی عرب یا مراکش کے کیلنڈر کی پیروی کرتے ہیں جبکہ دیگر افراد مقامی رویتِ ہلال کمیٹی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ تضاد ہر سال رمضان اور عیدین کے موقع پر اختلافات کو جنم دیتا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ برطانیہ میں بسنے والے مسلمان جدید سائنسی طریقوں کو اپنائیں اور محکمہ موسمیات سے رہنمائی لیں تاکہ چاند کے بارے میں درست اور سائنسی بنیادوں پر فیصلے کیے جا سکیں۔ اسلام خود بھی سائنسی ترقی اور عقل کے استعمال کی تاکید کرتا ہے، اس لیے پرانی روایات پر ضد کرنے کے بجائے عقلی اور سائنسی بنیادوں پر متحد ہونا زیادہ بہتر ہوگا۔
3. عید اور مذہبی تہوار: مشترکہ حکمتِ عملی کی ضرورت
مسلمانوں کے بڑے تہوار، جیسے عید الفطر اور عید الاضحیٰ، اتفاق اور اتحاد کا موقع ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کہ برطانیہ میں مسلم کمیونٹی نہ تو ان تہواروں کو ایک دن منا پاتی ہے اور نہ ہی ان کے حوالے سے کوئی مشترکہ حکمت عملی تیار کر پاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام الجھن کا شکار ہو جاتی ہے، اسکولوں اور دفاتر میں چھٹیوں کے حوالے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اور کمیونٹی کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی تنظیمیں اور مساجد ایک مرکزی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں اور چاند دیکھنے، عید منانے اور دیگر مذہبی معاملات پر ایک مشترکہ پالیسی ترتیب دیں۔ اگر مسلمان خود متحد ہوں گے تو غیر مسلم بھی انہیں سنجیدگی سے لیں گے اور ان کے مذہبی معاملات کا احترام کریں گے۔
4. مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی: خود احتسابی کی ضرورت
برطانیہ میں کئی مسلمان کاروباری، تعلیمی اور پیشہ ورانہ میدان میں کامیاب ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی بنیادی ترقیاتی مراحل میں پھنسی ہوئی ہے۔ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، اور مقامی قوانین کو نظر انداز کرنا ایسے عوامل ہیں جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود احتسابی کریں اور اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے بہتر حکمت عملی اختیار کریں۔ تعلیم اور ہنر پر توجہ دیں، دیانت داری کو اپنائیں، اور اپنی کمیونٹی کے مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
مسلمانوں کو اگر ترقی کرنی ہے تو انہیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا، ایمانداری کو اپنانا ہوگا، سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانا ہوگا، اور اپنی کمیونٹی میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے بجائے، ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مسلمانوں نے خود کو بدلنے کا عزم کر لیا، تو وہ ایک بار پھر دنیا میں باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں۔