خودکشیوں کے بڑھتے رجحان میں ہمارا منفی کردار

Spread the love

۔ محمد طاھر شہزاد

بہت دنوں سے ملک میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحان پر اخبارات اور میڈیا پر ٹویٹر سپیسسز پر مختلف نظریات اور سوچ رکھنے والے افراد اور سائیکالوجسٹس کی بحث و مباحثوں سے میں کوئی مثبت نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رھا تھا ،
مگر مجھے اکثر سائیکالوجسٹ اور دانشوروں سے اختلاف رھا ھے مگر بہت سے افراد کی مفید اور پریکٹیکل سوچ سے مستفید ھونے کا موقع بھی ملا ،
کاش ہم کوئی بھی سوچ یا نظریہ اپنے ذہنوں میں پختہ کرنے سے پہلے خود کو اس مقام پر رکھ کر سوچیں تو شائید ہم خودکشی کے بڑھتے رجحان کی اصل وجہ کے قریب پہنچ کر اس کا مفید انداز میں سد باب کر سکیں ,
مگر ہم سب پریکٹیکل ھونے کی بجائے تھیوریوں پر ہی رائے قائم کر کے اپنے اپنے ذہنوں کو ایک نظریے اور سوچ پر پختہ کر لیتے ہیں ٫
میں سائیکالوجسٹ کو محدود لمٹس تک ھی کارآمد سمجھتا ھوں ان حالات میں جبکہ 80 فیصد کیسسز میں میں سائیکالوجسٹ سے دور رکھنے کو ترجیح دیتا ھوں کسی بھی ذندگی سے مایوسشخص کو ،
میرے نظریے کے مطابق سائیکالوجسٹ ایسے افراد کا علاج کرنے کے بلکل اہل نہیں ھوتے کیونکہ آج کے تیزترین اور پیسہ کمانے کے شارٹ کٹ دور میں سائیکالوجسٹ کے پاس 10 منٹ سےذیادہ کا وقت نہیں ھوتا اپنے مریض کے لیے جبکہ سائیکالوجسٹ وہی بہتریں ھوسکتا ھے جو مریض کی سوچ کے لیول پر آکر آزادانہ اور دوستانہ ماحول میں مریض اور ڈاکٹر کے رشتے کے بندھن سے دور رہ کر اپنا بہت سا ٹائم اس کے ساتھ گزارے ۔ جبکہ آج کل کے سائیکالوجسٹ کے پاس ٹائم نہیں اور صرف مریض کے اعصاب کو کمزور کرنے اور ذہن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے علاؤہ انکے پاس کوئی پریکٹیکل حل نہیں ھوتا ، جبکہ وقتی طور پر مسئلے کو دبا دینا اصل اور مستقل حل نہیں ھوتا ,
انسانی فطرت رہی ھے کہ ہم مسئلے کے مستقل حل کی بجائےان مسائل سے آنکھیں بند کر کے گذر جانے کو ھی ترجیح دیتے ہیں ،
اور آجکل کے سائیکالوجسٹ بھی ہمارے لیے وہی ماحول اور راستے بنانے میں ہی صرف ہماری مدد کرتے ہیں ٫
جبکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک اعصابی اور ذہنی کمزور شخص کو معاشرے کا کامیاب انسان بنانے کی پہلی سیڑھی ہم خود اس سے چھین لیتے ہیں روائتی پیسہ چھاپ سائیکالوجسٹ کے پاس لیجا کر اور اعصاب اور ذہن کو کمزور کرنے یا مفلوج کرنے والی ادویات پر لگا کر،
جبکہ میرا خیال ھے کہ ہم پریکٹیکل لائف میں جا کر اگر اس مسئلے کا حل ڈھونڈتے تو شائید کہیں بہتر اور جلد نتائج حاصل کر سکتے ہیں ،
پریکٹیکل لائف میں جائیں تو میرا نہیں خیال خودکشی کوئی بزدل انسان کر سکتا ھے ، کیونکہ خودکشی بہادر انسان ھی کرسکتے ہیں کمزور انسان میں تو ہمت ھی نہیں پیدا ھوتی آپنی ذندگی کا خاتمہ اپنے ھاتھوں کرنے کی ،
اور جب ایک انسان اتنا بہادر ھے کہ اپنی زندگی بھی ختم کرسکتا ھے آپنے ہی ہاتھوں تو سوچیں اسی انسان کو اگر تھوڑا سازگار ماحول اور وقت دیا جائے تو کس قدر کار آمد اور مضبوط انسان بن کر معاشرے میں بہترین مقام حاصل کرسکتا ھے ؟
میرے خیال میں انسان تب تک خودکشی کی طرف راغب نہیں ھوتا جب تک اسے آپنے ارد گرد ایک ہستی بھی شئیرنگ کے لیے اسکا مضبوطی سے ھاتھ تھامےکھڑی نظر آتی ھے جس سے وہ اپنی ہر بات شئیر کرسکتا ھے اور جو اس کے معاشی لیول اس کی سوچ کے لیول پر اس کا ھاتھ تھامے کھڑا نظر آتا ھے، میرے خیال میں مایوس انسان اور خودکشی کرنے والے انسان میں فرق ھوتا ھے ، کمزور مایوس انسان ذندگی سے بےذار تو ھوتا ھے مگر ایک ناکارہ انسان بن کر ساری زندگی اپنی قسمت کو کوستا تو گذار دیتا ھے مگر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا کبھی نہیں سوچ سکتا جبکہ ایسے مایوس اور کمزور انسان خوشفہمیوں اور خوابوں خیالوں کی ذندگی میں ھی ساری زندگی گزار دیتے ہیں ،
مگر خودکشی کرنے والا شخص خوابوں خیالوں میں ذندہ رھنے کی بجائے پریکٹیکل لائف کو ترجیح دیتا ھے اور مایوسی کی صورت میں خوابوں کی ذندگی گزارنے کی بجائے اس ذندگی کا خاتمہ کر کے پریکٹیکل لائف کا مظاھرہ کرتا ھے ،
اور یہی اس کا مثبت کردار ھوتا ھے جسے ہم کبھی سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ،
خود کشی کرنے والے افراد اگر بچ جائیں اور سازگار ماحول اور سمجھے والے افرادانہی مل جائیں تو میرے خیال کے مطابق بہت کامیاب انسان بن کر معاشرے میں اپنا مقام بناتے ہیں ،
ایک مضبوط اعصاب کا پریکٹیکل انسان جب اپنے ارد گرد موجود اپنوں کے دور ھو نے پر مایوس ھوجاتا ھے تبھی خودکشی کی طرف راغب ھوتا ھے ،
انسان ھر مشکل وقت گذار لیتا ھے ، نہ محبت میں ناکامی نہ نوکری سے بے دخلی اور نہ باھر کے لوگوں کی دوری یا بے مروتی اور نہ غربت اسے خودکشی پر مجبور کرسکتی ھے ، جبکہ اگر کوئی بات اسے خودکشی پر مجبور کرتی ھے تو صرف تنہائی اکیلا پن یا جن سے اسے ساتھ رھنے یا آپنے آپ کو سمجھنے کی امید ھوتی ھے ان کے ساتھ چھوڑدینے یا دور ھونا انہیں خودکشی پر مجبور کردیتا ھے ،
میرے خیال کے مطابق خودکشی کی اصل وجہ آپنوں میں، گھروں میں اور دلوں میں فاصلے بڑھنا خودکشیاں بڑھنے کی اصل وجہ ھوتے ہیں نہ کہ دیگر مایوسیاں ،
ہمیں ان کا علاج کبھی سائیکالوجسٹ کے پاس نہیں مل سکتا صرف اپنوں کی کونسلنگ اپنوں کا تھوڑا ٹائم اپنوں کی تھوڑی ہمدردی اپنوں کی اس کے لیول پر آکر کونسلنگ وہ نتائج دے سکتے ھیں جو دنیا کا کوئی بھی سائیکالوجسٹ نہیں دے سکتا ،
ہمیں خودکشیوں کے رجحان کو کم کرنے کے لیے گھروں میں ایک دوسرے کے قریب آنا ھوگا ، تعنے ایک دو کے سہے جاسکتے ہیں مگر جب سب اس کے مقابل آکر کھڑے ھو جائیں اور اسے سمجھنے والا کوئی نہ رھے توایساانسان خودکشی پر مجبور ھو جاتا ھے ،
افسوس ہم جب اپنوں کے ساتھ کونسلنگ بھی کرتے ہیں تو اپنے لیول پر بیٹھ کر کونسلنگ کرتے ہیں جس کے مثبت نتائج کی بجائے منفی نتائج سامنے آتے ہیں ، اس سے وہ شخص اس کونسلنگ کرنے والے سے بھی کترانے لگتا ھے کیونکہ وہ اس کے لیول پر سوچتا ھی نہیں ۔ جبکہ ہر انسان کا ذہنی معاشی معاشرتی لیول دوسرے سے مختلف ھوتا ھے ، کونسلنگ تبھی کارآمد ھوتی ھے جب مایوس افراد کے لیول پر جا کر اس سے کونسلنگ کی جائے ۔ میں نے آپنی لائف میں بہت سے ایسے افراد پر کام کیا ھے انہیں سمجھا ھے اور کوشش کرتا ھوں کہ ان کے لیول پر جا کر بات کروں ۔ اس کے لیے کبھی کبھار مجھے وقتی طور پر اخلاقیات اور اپنے کردار اپنی سوچ کے مخالف بھی جانا پڑا ھے مگر 90٪ میں اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ھی رھا ھوں ہمیشہ ،
ہم سائیکالوجسٹ کے پاس ایسے ذندگی سے مایوشخص کو لے جاکر دو یا تین گھنٹے لائن میں لگ کر اپنے 4یا5 گھنٹے ضائع تو کرسکتے ہیں مگر گھر میں اس کے ساتھ بیٹھ کر تھوڑاڑائم اسے نہیں دے سکتے ؟
کیوں ؟
جبکہ صرف گھروں میں ایک دوسرے کے قریب ھونے سے ھی بہت اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔
ہم جب کسی دوسرے کواپنے لیول پر سمجھانے یا دیکھنے لگتے ہیں تبھی مسائل بڑھتے ہیں ،

جبکہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کبھی کہ یہ سوچ ، یہ خیال ھی کیوں سب کے شعور میں پختہ ھو گیا ھے کہ خودکشی کرنے والا ھر صورت موت کی آغوش میں چلا جائے گا ؟
جبکہ ہم یہ بھی جانتے ھوں کہ ذندگی اور موت کا وقت خدا نے متعین کیا ھوا ھے ۔ ہم اپنی مرضی سے نہ سانس لے سکتے ہیں اور نہ مر سکتے ہیں ، تو کس نے ہمارے ذہنوں کو اتنا پختہ کر دیا ھے کہ ہم یہی سوچ کر خودکشی کرنے نکل جاتے ہیں کہ ہم اب اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گے ، جبکہ خدا نے تو پہلے سے لکھا ھوا ھے، وہ وقت اور لمحہ تو اتنا پختہ یقین کیوں اور کیسے ؟
جبکہ جب خدا نے اس وقت موت نہیں لکھی تو جتنا مرضی انسان کوشش کر لے موت نہیں آسکتی ، اور اکثر مایوس اور دل برداشتہ لوگ خودکشی کرنے کی کوشش میں یا تو معذوری کاروگ پال لیتے ہیں یا ساری زندگی ناکامی کا لیبل اپنے ماتھے پر سجا کر جیتے ہیں , اور خود اپنی زندگی کو ھی اپنے لیے بوجھ بنا لیتے ہیں وقتی جذباتی یا مایوس کن سوچ میں ،
اور شائید یہی ان افراد اور دوسرے مایوس افراد اور ارد گرد موجود لوگوں کے لیے خدا کی طرف سے ایک میسج ھوتا ھے ایک نصیحت کا ، سوچنے کا اور اس رب عظیم کی شکر گزاری کا ،
مگر کاش؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں