غزل شکیل قمر برطانیہ
جب دن نکل رہا ہے تو کیوں رات کا ہے خوف
دن بھی نہ رات جیسا ہو اس بات کا ہے خوف
تاریکیوں میں چلتے رہے دیکھ بھال کر
جو دن میں رات گذری ہے اُس رات کا ہے خوف
سب کو یہاں پہ خوف اندھیروں کا ہے مگر
میں روشنی سے ہارا ہوں اِس مات کا ہے خوف
مجھ کو پتہ ہے کیا ہیں اندھیرے ،اُجالے کیا
کس سے نبھا ہو کیسے یہ حالات کا ہے خوف
کیا بھیگ پائیں گے با مداداں کی اُوس میں
لا حق نہیں پَروں کو جو برسات کا ہے خوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف