دختر مشرق بینظیر بھٹو شہید کی 14 ویں یوم شہادت 27 دسمبر کو منایا جائے گا، انعم طاہر راول

Spread the love

بے نظیر بھٹو شہید پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ایک عہد تھیں جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا.رہنما پاکستان پیپلزپارٹی سندھ

سندھ(نمائندہ خصوصی)اردو گلوبل رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما انعم طاہر راول نے کہا کہ بے نظیر بھٹو ایک عہد جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا ذوالفقار علی بھٹو سے دختر مشرق کا سفر طے کرنے والی بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ایک عہد تھیں جو 27 دسمبر 2007 کو تمام ہوا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قاتل نے گولی چلائی اور جمہوریت کی بلند آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔21 جون 1953 کو کراچی میں پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملکی سیاست کا ایک درخشاں ستارہ بنی صرف نام ہی نہیں ان کے کام بھی بے نظیر تھے جوانی میں قدم رکھا تو اعلی تعلیم کیلئے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیا تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال کر دکھایا اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قید سے لے کر پھانسی تک آمریت کے دور میں بے نظیر بھٹو نے ہر مصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوردلیری سے مقابلہ کیا 1986 میں بینظیر بھٹو جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن لوٹیں تو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بن کر سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا اور 1987 میں آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں بینظیر بھٹو 1988 میں پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تا ہم انکی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20 ماہ بعد ہی انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔1993 میں ایک بھر پھر حکومت ملی لیکن 3 برس بعد 1996 میں انہیں اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور برطانیہ سکونت اختیار کی 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو وطن واپس تشریف لائیں تو کراچی ایئرپورٹ پر لاکھوں کارکنوں نے انکا تاریخی استقبال کیا بینظیر بھٹو کو کراچی ایئرپورٹ سے قافلے کی صورت میں لے جایا گیا اس دوران کارساز کے مقام پر ان کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا اس حملے میں درجنوں کارکن لقمہ اجل بنے تا ہم بینظیر بھٹو محفوظ رہیں 27 دسمبر 2007 کق بینظیر بھٹو راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کیلئے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا تو قاتل نے گولی چلا دی اور یوں دختر مشرق بینظیر بھٹو ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو گئیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید بلاشبہ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں اور شہادت کے بعد بھی پاکستان اور دنیا میں ان کا نام روشن ہے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستان ایک عالم مرتبے کی راہنما سے محروم ہو گیا۔ یوں سب سے بڑا نقصان پاکستان کا ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوا۔ وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر تھیں۔ وہ اگر آج ہوتیں تو ملکی حالات مختلف ہوتے۔ دہشت گرد یوں نہ دندناتے پھرتے ان کی شہادت سے بحیثیت قوم ہمیں بہت نقصان ہوا ہے ۔ وہ واحد قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا آگے لے کر چل سکتی تھیں۔ وہ تمام دنیا میں جانی پہچانی شخصیت تھیں وہ دنیا بھر کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں کشمیری اور فلسطینی عوام کی کاز کے لیے نمایاں اور توانا آواز جسے خاموش کر دیا گیا۔پاکستان کی سابق وزیراعظم ان قوتوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھیں جو تہذیبوں کے تصادم کو فروغ دینا چاہتی ہیں کیونکہ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ لوگوں کو قریب لانا چاہتی تھیں ۔ ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی آئینہ دار ہیں وہ کہتی تھیں کہ زندگی چند دن کی ہے اس لیے فاصلوں کو مٹانا چاہیے اور ہر وقت مثبت اندازِ فکر اپنانا چاہیے۔ بی بی شہید کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھاکہ وہ دنیا سے غربت و افلاس کا خاتمہ اور اسے امن و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔قائدعوام کے چھٹے یومِ شہادت پر برمنگھم میں جلسہ ہوا ۔ اپنے خطاب میں بی بی نے کہا ’’میں شہید بھٹو کی بیٹی! شہد بابا اور پاکستان کے عوام سے یہ عہد کرتی ہوں کہ برائی کے خلاف اور نیکی کی فتح کے لیے اپنی تمام صلاحتیں وقف کر دوں گی اور مادرِ وطن کو غاصب اور مارشل لاء سے نجات دلانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی۔اللہ تبارک و تعالی دختر مشرق بینظیر بھٹو کی مغفرت نصیب کرے اور اللہ تبارک و تعالی انکی درجات بلند کریں۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں