بے باک اور نڈر صحافی!

Spread the love

جب کرونا جیسا خوفناک اور تباہ کُن وائرس ساری دنیا پراپنی دہشت طاری کیے ہوئے تھا اور بڑے بڑے تیس مار خان صحافی دُبک کر اپنی پناہ گاہوں میں عافیت کے لمحات گذار رہے تھے ایسے میں ایک نڈر اور بے باک صحافی میدانِ عمل میں ڈٹا ہوا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرلمحے لمحے کی خبریں دے رہا تھا ۔۔اس کے چہرے پر اکثر ماسک ہوتا تھا جو اس کی احتیاط کا منہ بولتا ثبوت تھا اور دوسروں کو بھی اسی کا سبق دے رہا تھا لیکن بے خوف ایسا کہ جیسے زبانِ حال سے کہہ رہا ہو’’ کرونا غور سے سُن ! موت اور زندگی اور بیماری اور صحت کے فیصلے زمین پر نہیں آسما ن پر ہوتے ہیں‘‘۔ پھر میں نے اس بے باک صحافی کے ان رویوں کی وجوہات جاننا شروع کیں تو معلوم ہوا ہے کہ یہ صحافی تو تحریکِ آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد مولانا عبداللہ سیاکھوی کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے ، اس نے اپنے صحافتی کردار کا آغاز شہرہ آفاق ماہنامے ’’مجاھد ‘‘ سے کیا ہے اوراس کی رگ رگ میں صحافت کے مقدس پیشے کاعشق موجزن ہے ،جو صحافت کو ایک پیشے کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔
یہ عظیم شخص جب تک وطنِ عزیز میں رہا مختلف صحافتی محاذوں پر سرگرم رہا لیکن جب بر طا نیہ کی سرزمین میں پہنچا تو اس کی سیماب پا شخصیت نے اسے یہاں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے متحرک کر دیا ۔وہ اخبارات و رسائل اور ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے اپنا مدعا عوام الناس کے سامنے پیش کرتا رہا ۔شب وروز کی محنت ، صحافتی مہارت اور اپنے کام سے عشق نے اسے دنیا ئے صحافت کے مقبول ترین ادارے ’’جنگ و جیو ‘‘ کا نمائندہ بنا دیا۔وہ اس پلیٹ فارم سے اب تک ہزاروں نیوز رپورٹس پیش کرنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔ اس کا مقبولِ عام کالم ’’تصویر کادوسرا رُخ‘‘ حقائق کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری مطمئن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔کمیونٹی کے مسائل ہوں یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ قومی ہو یا بین الاقوامی یہ صحافی اسے ہائی لائٹ کرنے میں اپنا کردار ضرورادا کرتا ہے۔ یہ صحافی متعدد ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹ تو حاصل کر ہی چکا ہے لیکن میرے نزدیک اس کے لیے سب سے بڑا اعزاز 2018میں اس وقت سامنےآیا جب اللہ تعالیٰ نے اسے حجِ بیت اللہ کی سعادت عطا فرمائی اور جب یہ شخص ’’حاجی ‘‘ بن کر لوٹا تو اہلِ برطانیہ نے اس کے اعزاز میں جو تقریبات منعقد کیں وہ اس بات کا واضح ثبوت تھیں کہ یہ شخص ہزاروں دلوں میں بستا ہے۔
تو اے میرے پیارے، نڈر اوربے باک صحافی ابرار مغل میری تو بس یہی دعا ہے کہ تو اسی طرح آسمانِ صحافت پر چمکتا دمکتا رہے، تیرا قلم تصویر کے سارے رُخ دکھاتا رہے اور کیونٹی تجھ سے لگاتار فیضیاب ہوتی رہے ۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں