عظیم اداکار محمّد علی صاحب نہ صرف فن ادکاری میں کمال مہارت رکھتے تھے بلکہ مشکل سے مشکل کردار کو اتنی خوبصورتی سے ادا کرتے تھے

Spread the love

ملک بشیر احمد مندوانی بیوروچیف بلوچستان: ہمارے پاکستان بلکہ ایشیا کے عظیم اداکار محمّد علی صاحب نہ صرف فن ادکاری میں کمال مہارت رکھتے تھے بلکہ مشکل سے مشکل کردار کو اتنی خوبصورتی سے ادا کرتے تھے کے اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا تھا بلکل نیچرل اداکاری کرتے تھے اور انکو ایک یہ بھی اعزاز حاصل رہا ھے کے انہوں نے جب بھی کوئی رونے والا سین فلمبند کرایا تو کبھی بھی گلسرین کا استمال نہ کیا بلکہ وه کردار میں اتنا ڈوب جاتے کے ان کی آنکھوں سے قدررتی طور پر آنسو جاری ہو جاتے وه ایک بہت بڑے اداکار تھے جنکی مثال مشکل سے ملتی ھے
نواز شریف کے دور حکومت میں نواز شریف نے محمّد علی صاحب کو اپنا مشیر خاص پاکستان فلم انڈسٹری کے مساہل اور دیگر امور پر محاون مقرر کیا تھا جو کے وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ تھا
محمّد علی صاحب ایک مذیبی سید گھرانے سے تعلق رهکتے تھے انکے والد محترم مسجد میں پیش امام بھی تھے اور لوگوں کو قران پاک کا درس بھی دیتے تھے شندمیں آیا ھے کے انکے والد کے لاکھوں لوگ مرید تھے یہی وجہ ھے کے علی صاحب ایک نہایت شریفلنفس انسان تھے انہوں نے کہی حج اور عمرے بھی ادا کیے انکے دل میں غریبوں کے لیے محبت ہمدردی کا بہت نرم گوشہ رهکتے تھے انھوں نے پنجاب کے مختلیف شہروں میں بچوں کے لے تھیلسمیا کے اسپتال قاہم کیے جہاں بچوں کو فری خون دیا جاتا ھے جسکی نگرانی محمّد علی مرحوم کی وفات کے بعد انکی بیگم زیبا صاحبہ کر رہی ہیں علی صاحب کی لوگ اتنی عزت اور احترام کرتے تھے انکو بھیا کھکر پکارتے تھے چاۓ ان سے عمر میں بڑے ہوں یا چھوٹے محمّد علی صاحب کہی یتیم بچوں بیوہ اور غریب لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے اور انکے گھروں کے چھو لےعلی صاحب کی بدولت جلتے تھے جو علی صاحب کی وفا ت کے بعد علی صاحب کے لیے رو رھے تھے کے آج ہمارا پالن ہار ہم سے روٹھ کر چلا گیا علی صاحب کی برسی پر آج بھی کہی انجان لوگ انکی قبر پر دعا مغفرت مانگنے اتے ہیں شاہد یہ انھیں میں سے کچھ لوگ ہوں جنکی علی صاحب اپنی زندگی میں ۔انکی مدد کرتے ہوں علی صاحب ایک عظیم ااداکار نہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے
وه ایک وفادار شوہر بھی تھے انکی کوئی بھی اپنی اولاد نہ تھی انہوں نے مال دولت عزت شہرت ہونے کے
باوجود دوسری شادی نہ کی بلکہ انہوں نے زیبا بیگم کے پہلے شوہر سے ایک بیٹی ثمینہ کو اپنی حقیقی بیٹی کی طرح پیار دیا اس کی پرورش کی شادی کرائی اور ثمینہ کے بچوں کو ایک نانا کا بھرپور پیار دیا
انکا ایک سچا واقیہ آپ دوستوں کے گوش گزار کیا جاتا ھے
کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر، میں اور علی بھائی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ ملازم نے علی بھائی سے آ کر کہا کہ باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ علی بھائی نے اسے بلوا لیا۔ کاروباری سا آدمی تھا۔
لباس صاف ستھرا مگر چہرے پر پریشانی سے جھلک رہی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی ، سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھہ گیا تو علی بھائی نے کہا۔ ’’ جی فرمایئے ‘‘
’’ فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ! کچھہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھہ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے اس سے کہا:
’’آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیے‘‘
اس آدمی نے کہا ’’ چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب !‘‘
’’جی‘‘
’’لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے‘‘
’’کیوں‘ کیسے جا رہی ہے؟ ‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
’’ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا۔‘‘ وہ آدمی بولا ’’میں نے کچھہ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے۔
’’آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟ ‘‘
’’جی جی وہی‘‘ وہ آدمی بولا ۔۔۔۔۔۔ ’’علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ، میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘
’’ فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
’’میرے پاس بیس ہزار ہیں‘ پچاس ہزار آپ مجھے ادھار دے دیں ، میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا۔‘‘
علی بھائی نے مسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
’’روبی بھائی! یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے۔ کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے۔ کبھی مات کبھی جیت۔‘‘ یہ بات کہی اور اٹھ کر اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا۔ کرسی پر بیٹھہ گئے اور اس آدمی سے کہنے لگے:
’’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ’’جی! یہ بہت پرانی بات ہے‘‘
’’جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں‘‘ علی بھائی اچانک کہیں کھو گئے۔ سگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھہ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے:
’’آپ کے پاس تین روپے ٹوٹے ہوئے ہیں؟ ‘‘
’’جی جی ، ہیں‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھہ نوٹ نکالے اور ان میں سے تین روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے۔ علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا۔
’’یہ پچاس ہزار روپے ہیں‘ لے جایئے‘‘
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھہ کپکپا رہے تھے۔ اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا:
’’علی بھائی مگر یہ تین روپے آپ نے کس لئے ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’ یہ میں نے آپ سے اپنی تین دن کی مزدوری لی ہے۔‘‘
’’مزدوری …مجھہ سے! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔
’’1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی۔‘‘
علی بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا۔ علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی۔
’’مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میری تین دن کی مزدوری رکھہ لی تھی۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈال لئے۔
’’آپ یہ پچاس ہزار لے جائیں‘ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا۔‘‘
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی دو حنوط شدہ ممیاں کرسی پر رکھی ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں