مجھے پتہ تھا میں اک رو ز مرنے والا تھا

Spread the love

ڈاکٹر راحت اندوری کے مصرع طرح پر لکھی گئی ایک غزل۔

شکیل قمر

مجھے پتہ تھا میں اک رو ز مرنے والا تھا
میں ڈوب کر بھی کہیں پار اُترنے والا تھا

یہ حق کی راہ میں مرنا بھی اک سعادت ہے
”میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا“

یہ خوف مرنے کا مجھ کو تو مار ڈالے گا
میں حوصلے سے اسے دور کرنے والا تھا

یہ غفلتوں نے مجھے کر دیا ہے خوف زدہ
میں ہار کر بھی نہیں اُس سے ڈرنے وا لا تھا

میں اس لئے بھی نہیں کرتا ہوں یقیں اس کا
وہ اپنی بات سے ہر پل مکرنے والا تھا

یہ خوف کیسا ہے جب سب کو ہی تو مرنا ہے
یہی وہ بات تھی میں اُس سے کرنے والا تھا

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں