غزل :شکیل قمر
جانے کا کوئی عُذر بنا کر نہیں گیا
اس بار مجھ کو و ہ بتا کر نہیں گیا
ایسا بھی اس نے کوئی اشارہ نہیں دیا
جا تو رہا تھا ہا تھ دبا کر نہیں گیا
لگتا ہے یوں کہ جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے بھی آنکھ ملا کر نہیں گیا
اس بار لوٹ آئے تو جانے نہ دوں کبھی
دل سے مرے وہ خود کو مٹا کر نہیں گیا
مجھ میں ہی گر کمی تھی بتا کر نہیں گیا
پہلے کی طرح ہاتھ ہلا کر نہیں گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن