درد اپنے دنیا سے چُھپائے ہوئے ہیں

Spread the love

غزل

درد اپنے دنیا سے چُھپائے ہوئے ہیں
دیا دل کا یادوں سے جلائے ہوئے ہیں

سنبھال کے رکھتے ہیں دیتے نہیں کسی کو
درد ہم نے بڑی محنت سے کمائے ہوئے ہیں

ہماری بے رخی، بے وفائی کا شکوہ نہ کیجیے
یہ سبق تو زمانے کے پڑھائے ہوئے ہیں

کب لوٹ کر آئے گی وہ روٹھی بہار؟
ہم راستوں پر آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں

چلو جلائیں کچھ چراغ پھر محبتوں کے
بڑے ہی گہرے شام کے سائے ہوئے ہیں

سعدیہ قریشی: ملٹن کینز۔۔ یو۔کے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں