آئین کی بالا دستی اور اداروں کی حدود کا تعین ھی پاکستان کی بقاء کا ضامن ھے ۔

Spread the love

✍️۔ محمد طاھر شہزاد 5 نومبر 2020

کسی بھی معاشرے میں جب ظلم کی انتہا اور انصاف کاقتل عام ھونے لگے تو بغاوتیں ھی جنم لیتی ہیں ۔ سرکس کا رنگ ماسٹر اپنے سدھائے ھوے شیر کو بھی تبھی کنٹرول کرتا ھے جب اپنے دائرے اور حدود میں رھتے ھوئے احکامات دیتا ھے ، مگر اسی رنگ ماسٹر کے ضرورت اوربرداشت سے زیادتی کی صورت میں اکثر وہی سدھائے ھوےشیر بھی اکثر بغاوت کر دیتے ہیں ۔ آج ہماری سیاست اور ملکی حالات اور اسٹیبلشمنٹ کے اپنی طاقت کے نشے کے گھمنڈ نے آج تمام اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے ہی اداروں کے خلاف بغاوت پر مجبور کر دیا ھے ۔
مگر میرا خیال ھے کہ آج یہ بغاوت ھی شائید تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں قید کرنے میں ایک روشنی کی کرن نظر آتی ھے ۔
آج میاں صاحب اور مسلم لیگ نواز کا اپنے بیانیے پراعتماد ظاھر کرتا ھے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ عرب لیگ اور تمام مسلم امہ ، چائنہ اور تمام بین القوامی طاقتوں کا اعتماد کھو چکی ھے ۔ باقی رھاسہا اپنے ملک کی عوام میں بھرم بھی بند کمروں کی باتیں قوم کے سامنے رکھ کر چکنا چور کر ڈالا ھے میاں صاحب نے ۔ آج میاں صاحب کے جارحانہ انداز نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر قوم کے ذہنوں میں بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں ؟
جلتی پر تیل کا کام خود آئی ایس پی آر کی ایاز صادق کی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر پریس کانفرنس اور وزیر اعظم اور حکومتی وزراء کی وضاحتی پریس کانفرنسسز نے کیا ، میرے خیال میں اگر ایاز صادق کی اسمبلی میں تقریر کو سیاسی ہی رھنے دیا جاتاتو اسٹیبلشمنٹ پر سوالات نہ اٹھتے ۔ مگر اس سیاسی تقریر میں رنگ خود اسٹیبلشمنٹ کی پریس کانفرنس نے بھر ے اور اس سیاسی بیان کو کنفرم کیا کہ بند کمروں میں اسٹیبلشمنٹ کارول کیا ھوتا ھے ،
ایاز صادق صاحب نے تو شاہ محمود قریشی صاحب کی آڑ میں ڈھکی چھپی بات کی مگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی کردار نے ایاز صادق کے سیاسی بیان پر مہر ثبت کر دی کہ بند کمرے کی بات باھر کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ایاز صادق نے ۔
میرے خیال کے مطابق اگر ہم اپنے مذھب اور اپنی اپنی پارٹیوں کے آئین و منشور کے معاملے میں آتنے جذباتی ہیں صرف اس لیے کہ اپنے ایمان اور اپنی پارٹی سے جڑی لگن کی پختگی کو ثابت کرنے کے لیے تو ہم اپنے ملک کے آئین کی پختگی کے لیے جذباتی کیوں نہ ھوں ؟ جبکہ اسی آئین کی پاسداری میں ھی ہماری ترقی پنہا ھو ۔
جبکہ ہمارا مذھب بھی ایک آئین کے تابع ھے اور پارٹیاں اور ملک سبھی آئین کے تابع ھوتے ہیں جبکہ آئیں کی طاقت میں ھی کسی بھی قوم کی طاقت چھپی ھوتی ھے ، میرے خیال کے مطابق آئین پر مکمل عمل درآمد سے ھی پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانا ممکن ھے ۔ تمام اداروں کی خامیوں کو سامنے لا کر اصلاح کرنے میں ھی پاکستان کی بھلائی ھے نا کہ اداروں کی کمزوری ۔
آج اگر نواز لیگ ، جماعت اسلامی اور تمام اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیاں اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اخلاقیات کے جال میں پھنس گئی تو شائید اپنی موت خود ماری جائیں ۔ جبکہ اخلاقیات کی پکڑ تمام اداروں پر ھونی چاہیے ناکہ صرف سیاسی پارٹیوں پر تو اخلاقیات کا اطلاق ھو مگر اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور نیب اخلاقیات کے دائرے سے آزاد ھوں ۔
آج پاکستان کی بقاء کے لیے ضروری ھے کہ حقائق چاھے کسی بھی ادارے کی رسوائی کا باعث ھی کیوں نہ ھوں سامنے لانے میں اور ان کی اصلاح میں ہی اس وقت پاکستان کی بقاء ھے ۔

آج جس آئین کی سپر میسی کے لیےمیاں صاحب نے اپنے سفر کا آغاز کیا ھے اگر اس سفر میں اسٹیبلشمنٹ کے ھاتھوں بچ گئے تو پاکستان کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکے کبھی ۔ مگر اس کے لیے ضروری ھے کہ اپنے بیانیے پر میاں صاحب ثابت قدمی سے ڈٹ کر کھڑے رہیں ۔ میرے خیال کے مطابق پاکستان کو بچانے کے لیے سیاست دان جب تک مرنے کے لیے میدان میں نہیں آئیں گے تب تک ممکن نہیں پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانا ۔ آج میاں صاحب کی اس ثابت قدمی سے امید کی کرن نظر آتی ھے ۔
71 کی دھائی سے شائید ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا، بنگالیوں یا مجیب کے حق کو اپنی طاقت کے نشے میں کچلنے کی کوشش میں ہم نے بنگلہ دیش گنوا دیا مگرہماری اسٹیبلشمنٹ نے اپنی خامیوں کی اصلاح کی بجائے طاقت کے نشے میں مزید غلطیاں کرتی نظر آتی ھے ۔ جن غلطیوں کی قیمت قوم کو ادا کرنی پڑ تی ھے نہ کہ اداروں کو ۔
اگر پاکستان میں آج میاں صاحب اور تمام سیاسی طاقتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اس بےجا طاقت کے گھمنڈ کو نہ توڑا اور آئین کی سپر میسی کو یقینی نہ بنایا تو اگلے چند سال تک پاکستان ضرور ٹوٹنے کے عمل سے گزرتا نظر آئے گا ۔ کیونکہ اس وسائل پر قبضے کی جنگ میں کمزور اسٹیبلشمٹ ھی پاکستان کی موت کی وجہ ھوگی ۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان کے وسائل پر قبضے کی جنگ میں پاکستان پر قرضوں کا حجم ہر سال پچھلے سال سے دگنا ھونے پر بوجھ قوم کے لیے برداشت کرنا نا ممکن ھو جائے گا ۔ اور وہی عوام اپنا سفر آگے جاری رکھ سکے گی جو اس ملک سے آزاد ھو کر پاکستان کے قرضوں کے بوجھ سے سے آزاد ھو جائے گا ۔
شائید امریکہ ، اسرائیل اور پاکستان مخالف بین القوامی طاقتیں اسی منصوبے کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کے اس جال میں مذید الجھاتے جارھے ہیں ۔
اگر پاکستان کی معیشت کی یہی حالت رھی اور قرضوں کا حجم اسی تیزی سے ضرب کھاتا رھا ھر سال تو اگلے دو سے چار سال تک مہنگائی کا طوفان قوم کی برداشت سے باھر ھو جائے گا ۔ اور اس کا واحد حل یہی ھوگا کہ پاکستان کے قرضوں کے بوجھ سے جو صوبے یا قوم آزاد ھوتے جائیںگے وہ اپنا سفر نئے سرے سے آزادانہ شروع کرنے کے قابل ھو تے جائنگے۔
آج ہمیں سوچنا ھے کہ کیا آج ہمیں اس ملک کے آئین کی سپر میسی کو یقینی بنا کر ہمیں اس ملک کو مظبوط بنانا ھے یا اتنا کمزور کہ ہلکے سے ھوا کے جھونکے سے ہی اس ملک کی دیواریں گر جائیں ۔
ان حالات میں میاں صاحب کا آئین کی سپرمیسی کا نعرہ اگر کمزور نہ پڑا تو مجھے امید ھے اس نعرے اور عزم کی طاقت پاکستان کو ٹوٹنے سے ضرور بچا لے گی ۔ مگر اس کے لیے ضروری ھے اپنے عزائم اور بیانیے میں مزید سختی لائی جائے ، اور اپنے بیانیے کو صرف ایک بیانیہ کے طور پر نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس بیانیے کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے اور تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں قید بھی کیا جائے ، جبکہ لگتا ھے کہ میاں صاحب اور پیپلز پارٹی دونو اس دباؤ کو صرف اسٹیبلشمنٹ کو ٹیبل پر لانے کے لیے ہی استعمال کرنا چاہتی ہیں اپنی اپنی سروائول کے لیے صرف نہ کے پاکستان کی بقاء کے لیے ۔
گلگت اور سینٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی اور مولانا صاحب کو فیور دینے کے سگنل دیتی نظر آرھی ھے تاکہ چند سیٹیں پیپلزپارٹی اور مولانا صاحب کو سینٹ میں دلوا کر اپوزیشن اتحاد کو کمزور کیا جاسکے ،
پیپلز پارٹی اپنی اس پوزیشن کا فاعدہ اٹھنا چاہتی ھے کیونکہ اپنے وقت سے پہلےنئے الیکشن پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں بلکہ نوازلیگ کے حق میں جائینگے ۔ اسی لیے پیپلز پارٹی نئے الیکشن سے ذیادہ اپنے اوپر کیے گئے کیسسز میں فیور اور سینٹ الیکشن اور گلگت سلیکشن میں اسٹیبلشمنٹ سے فیور لینا چاہتی ھے اور شائید فیور لینے میں کامیاب بھی ھو جائے ۔ مگر اگر اسٹیبلشمنٹ نے فیور کے نام پر دھوکہ دے دیا ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح تو شائید پیپلزپارٹی بھی گلگت الیکشن کے بعد بھوکے شیر کی طرح ذیادہ سخت بیانئے پر آ جائے ۔ مگر اس کا دارو مدار گلگت الیکشن کے رزلٹ پر ھے ۔
میرے خیال کے مطابق آج سب خامیوں اور سچائیوں کو سامنے لا کر ھی تمام اداروں کی اصلاح سے ہی پاکستان کو مظبوط بنایا جاسکتا ھے ۔
آج بہت زورو شور سے کہا جا رھا ھےکہ بھارت میاں صاحب کے بیانیے پر پاکستان کے اداروں کا مذاق اڑا رھا ھے ۔ تواس کا دوسرا رخ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ آج بھارت بھی ہمارے آئین اور اداروں کوطاقتور نہی دیکھنا چاھتا ۔ آج بھارت بھی ہمارے آئین کی سپرمیسی کے خلاف ھے اور ھماری اسٹیبلشمنٹ بھی تو اس کا پھر یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ھے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بھارت ایک پیج پر ہی ہیں ۔
آج ہم نے یہ موقع بھارت کو کیوں دیا کہ وہ ہماری آئینی کمزوریوں کا مذاق اڑائے ۔
آج خان صاحب سمیت تمام حکومتی وزراء اور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بار بار ایک میسج دیتی نظر آتی ھے کہ آج پاکستان میں سب ادارے پہلی بار ایک پیج پر ہیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کل تک معیشت قدرے بہتر تھی مہنگائی قدرے کم تھی مگر تمام ادارے الگ پیج پر تھے کیونکہ میاں صاحب کی حکومت پر کوئی کرپشن اسکینڈلز سابت نہ ھونے کے باوجود جرنل باجوہ اور راحیل شریف صاحب کے پیامبر برملہ کہتے نظر آتے تھے کہ میاں صاحب کی کرپٹ حکومت کا خاتمہ کر کے قوم کی کرپٹ حکومت سے جان چھڑ وائیں گے ۔ مگر آج گندم ، چینی ، پاور اور میڈیسن و دیگر میگا سکینڈلز کے سامنے آنے کے باوجود اج سب ادارے ایک پیج پر ہیں ؟
تو کیا آج اتنے بڑے بڑے میگاسکینڈلز کے باوجود سب اداروں کاایک پیج پر ھونے کا مطلب سب ادارے آج کیا مل بانٹ کر کھارھے ہیں ؟
اوراگر کسی سکینڈلز پر کاروائی بھی نہیں ھوتی اور سکینڈلز کے میگا کرداروں کی پشت پناہی بھی یہی ادارے کرتے نظر آئیں تو سمجھ آتی ھے کہ واقعی آج سب ادارے ایک پیج پر ھی ہیں .
آج عدلیہ اور نیب کے میگاسکینڈلز کے کرداروں کے کیسسز پر انتہائی سست روی اور اسٹیبلشمنٹ کا انہی کرداروں کو چھتری فراہم کرنے سے اس بیانیے کوواضع تقویت ملتی ھے کہ آج واقعی سب ادارے ایک پیج پر ہیں۔

آج بند کمروں کے حقائق سامنے لانے کا مقصد کسی ادارے کی بدنامی مطلوب نہیں ھونی چاہیے بلکہ اصلاح کی غرض سے تمام حقائق سامنے لانا ضروری ھے ۔ تاکہ اداروں کو اپنے بند کمروں کے اندر کے کردار کو اپنے کردار کےآئنے میں دیکھنے کا موقع مل سکے ۔ یہی شرمندگی ھی ان اداروں کی اصلاح کا موجب بن سکتی ھے بصورت دیگر قوم کو 71 کی تاریخ دوبارہ دیکھنے کو ملے گی اور وہ بھی ایک بار نہیں بار بار۔ اب قوم نے فیصلہ کرنا ھے کہ 71 کی ہسٹری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے یا بار بار دھرایا جائے ؟

    ذرا سوچئیے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں