تحریر:مظہر مغل
جیسا کہ آپ سب معلوم ہے کہ مقامی انتظامیہ کا اہم مرکز اسسٹنٹ کمشنر و ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن کا دفتر ہے جہاں بڑے سے بڑے اور چھوٹے مسائل کے حل کیلئے سینکڑوں سائلین روزانہ تحصیل آفس کا رخ کرتے ہیں اس ہفتے کی خاص بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک خبر جس میں سکول جانے کی بجائے طلبا کا انٹرنیٹ کیفے کے باہر دیکھا گیا اور انتظامیہ سے ایکشن لینے کی اپیل کی گئی، جس پر فوری نوٹس لیتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر و ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت لیفٹنٹ (ر) محمد اویس عباسی نے سیکٹر مجسٹریٹس کوحکم دیا کہ جہاں جہاں انٹرنیٹ کیفے کی موجود ہے وہاں سرچ آپریشن کیا جائے اور خلاف ورزی پر کاروائی کرکے رپورٹ کیا جائے۔ جس پر مجسٹریٹس نے درجنوں کم عمر اورسکول یونی فارم میں ملبوس طلباء کو تحصیل آفس پہنچادیا۔ اور نصف درجن سے زائد انٹرنیٹ کیفے کو سیل کردیا۔یہ اہم خبر گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے میرے نزدیک یہ خبر دیگر خبروں میں سب سے اہم ہے اور ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نقل و حمل پر نظر رکھیں، سکول انتظامیہ سے معلوم کریں کہ ان کے بچے سکول پہنچیں بھی ہیں یا کہیں اور گئے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کا کہاں تک خیال رکھ رہے ہیں، سکول کے نام پر انٹرنیٹ کیفے پہنچنے والے کم عمر طلبا کی زمہ دار کون ہے کیا ہمارا معاشرہ ترقی کے نام پر اخلاقی گراوٹ میں پھنس تو نہیں گئے ہیں موبائیل کے نام پر ہمارے کم عمر، نوجوان نسل کو آسان رابطہ کاری کتنا خطرناک ثابت ہورہی ہے کیاہم والدین اپنی اخلاقی، دینی، سماجی، زمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھار رہے یا وقت گزاری میں مشغول ہیں۔ اگر ہم اپنے نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں پر نقصانات کا بھی بڑا احتمال ہے اس کا معمولی غلظ استعمال کم عمر بچوں کا روشن مستقبل تباہ و برباد کرسکتی ہے سماجی زمہ داری طلبا و طالبات کو صحیح راہنمائی نہیں کریں گے اور انہیں اچھے برے کی تمیز نہیں بتائیں گے شاید آنے والی نوجوان نسل کے گنہگار کہلائیں گے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے انٹر نیٹ کیفے مالکان کو خبر دار کیا ہے کہ وہ اپنے کیفے کے دروازوں کو کم عمر بچوں اور طلبا کیلئے بند رکھیں گے اگر ان کے نیٹ کیفے میں آئندہ کسی طلبا، اور کم عمر بچوں کو نیٹ کلبوں میں دیکھا گیا تو نیٹ کیفوں کو مستقل طور پر بند کرنے کے ساتھ مالکان کو بھاری جرمانوں کے ساتھ جیل کی سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے والدین سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کے ساتھ انکی نقل و حمل پر نظر رکھیں۔ اور متعلقہ سکول انتظامیہ کے ساتھ رابطہ میں رہیں۔ تاکہ ان کے خوابوں کی تعبیر مل سکے اور زندگی بھر کا پچھتاوا نہ رہے۔ وسلام