ہمارے ملک کا فرسودہ تعلیمی نظام

Spread the love

تحریر۔صفدر خان باغی

ملک بھر کے تقریبا تمام سرکاری و نیم سرکاری تعیلم ادارے اور خاصکر ایجوکیشن بورڈز کی ناقص کارکردگی نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بہت بڑے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔حکومت وقت کی جانب سے تعیلمی ایمرجنسی نافظ العمل ہونے کے باوجود سرکاری و نیم سرکاری محکمہ تعلیم و تعیلمی اداروں کی کارکردگی سب اچھا ہے کی بنیاد پر صفر بٹہ صفر ہے۔طالبہ و طالبات کی امتحانات کے بعد نتیجے اور ہائی مارکس اے ون گریٹ دیکر ٹاپر قرار دینے کی روایت اس سال بھی نہ سدھیر سکی۔ ملک کے تمام طول و عرض کے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کی بہت بڑی تعداد بورڈز کے امتحانات میں اے ون گریڈ اور ٹاپ پوزیشن ہولڈرز نے پاکستان کے تعلیمی بورڈز کے 77 سالوں کے ماضی کے ان تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔وفاقی و صوبائی وزیر محکمہ تعلیم صاحبان وزیر اعظم پاکستان کو ملک کی شر خواندگی میں اضافہ کی نوید سناتے اور تعاریف کے پل باندھ تھکتے نہی ہیں۔حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے تعلیمی ایمرجنسی کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری و نیم سرکاری سکولز، کالجز، یونیورسٹیز کے طالب علم بھی خوش ہیں کہ وہ نقل کے زریعے اچھے نمبروں سے پاس ہو جائینگے، اساتذہ پروفیسرز پرنسپل صاحبان بھی خوش ہیں کے کلاسوں میں زیر تعیلم طالب علم نالائق کنند زہین کمزور و عزیز طالب علموں کو وقت سے پہلے نقل کے زریعے حل شدہ پرچے مل جاتے ہیں والدین بھی خوش ہیں چلو نقل سے ہی سہی مگر ہمارے بچے کامیاب ہو تو جائینگے۔ سکولز، کالجز، یونیورسٹیز کے سربراہان جو بڑی بڑی تنخواہیں مراعات لیتے ہیں وہ بھی خوش ہیں کہ محکمہ تعیلمی بورڈز میں نمایاں پوزیشن ملتے ہی سکولز ،کالجز، یونیورسٹیز کا نام خوب اونچا بلند و روشن ہوگا۔ بورڈ کی جانب سے مقررہ امتحانی عملہ بھی خوش ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں رنگ برنگ چٹ پٹے مرغن لزیز کھانے گرم گرم سموسے چکن پیسسز ہسٹری کیک اور چائے ٹھنڈے مشروبات اور ہلکی پھلکی شاپنگ جوڑے قیمتی موبائل پرفیوم وغیرہ اور ملک کے خوبصورت ٹورسٹ سپاٹ کے لئیے طالب علموں کی جیب سے بورڈ کے امتحانی پرچوں کی نقل کے لئیے نکلے ہوئے پیسوں سے سیر سپاٹے سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل گیا۔بورڈ انتظامیہ اور محکمہ تعلیم بھی خوش ہیں کہ ملک بھر تعیلم یافتہ نوجوانوں کی تعداد بڑ رہی ہے۔لیکن یاد رکھیں ہم بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں آج سے ٹھیک دس یا پندرہ سال بعد جب اس ملک خدادا ریاست پاکستان کی بھاگ دوڑ کے لئیے مستقبل میں ہم ایسی نئی نوجوان نسل قوم کے معماروں کو تیار کر رہے ہیں جو اس ملک خدادا کا سب سے کرپٹ ترین طبقہ محکمہ تعیلم تیار کر چکی ہوگی۔ تو اسکا خمیازہ ناصرف ہم نے بلکہ ان نقل شدہ ہائی مارکس ٹاپ ڈگری ہولڈرز نوجوانوں کی بربادی کا سامان اکھٹا کر رہے ہیں۔ملک ترقی کی راہ پر نہی بلکہ تنزلی کی راہ پر گامزن ہوگا خدانخواستہ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے محکمہ تعیلم و بورڈ کی سطح پر اس نقل کے ناسور کو ختم کرنے کے لئیے مشترکہ طور پر امتحانات میں شفافیت کے لئیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں جائیں اور اسکے لئیے پہلا قدم بڑھانا ہوگا۔سکولز، کالجز، یونیورسٹیز میں مضامین کی تعداد کم کی جائے، سستی تعیلم دینے کہ ساتھ بھاری بھرکم ایڈمشن اور ماہانہ سہ ماہی شش ماہی اور سالانہ سامسٹر کی پچاس فیصد فیسوں میں کمی کی جائے ون سلیبس ملک بھر کے تمام تعیلمی اداروں میں ہر سبجیکٹ کی تعداد بھی کم کی جانی چاھیے موٹی موٹی بھری بھرکم کتابوں سے طالب علموں کو آزاد کرنا چاھیے بلکہ مضامین کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئیے آسانیاں پیدا کی جائے۔ سلیبس کو چار حصوں میں تقسیم کرواکر ہر مضمون کے لئیے باقائدہ ایک دن مقرر کیا جائے کئی کئی گھنٹوں کی لمبی پیرڈ کی کلاسوں میں پروفیسر اساتذہ کرام خود بھی تھک اور بور ہو جاتے ہیں اور طالب علموں کے زینوں ہر دباؤ بڑھتا ہے اور زیادہ تر طالب علم ڈپریشن کے شکار ہو جاتے ہیں وہ تعیلم حاصل کرنے سے بدزن ہماور بے راہ روی اور نشے وار ادویات ڈرگز اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں ۔لہزا ہر سبجیکٹ کے چیپٹرز کو بھی مختصر کرنے کی بنیاد پر نظام تعلیم میں بہتری لائی جائے اور تعیلمی میعار کو درست راستے پر گامزن کرنا ہوگا۔ورنہ تقدیر کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے ملک محکمہ تعلیمی کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت پر غم و ماتم کرنے کے سوا کچھ بھی نہی ہوگا۔ملک میں شرخواندگی صرف کاغزی بنیاد پر نہی بلکہ قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر درست کی جائے۔ کسی بھی ترقی پزیر یا ترقی یافتہ ملک کا نظام میں بہتری لانے کے لئیے اس ملک کا تعیلمی نظام ریڑ کی ہڈی کی مانند اور اھم بنیاد رکھتا ہے۔ جب سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی ادارے اور محکمہ تعیلم کے سربراہان کی جانب سے عدم دلچسپی دکھائی دی جائے گی تو پھر وہاں تعیلم کا جنازہ نکلے گا اور میعار تعیلم زوال پزیر ھوگا۔ جب ملک کے حکمران وزرا انکے کار خاص کارندے اور محکمہ تعیلم کے چند وہ کرتے دھرتے سیاسی و زاتی بنیادوں پر اپنے اپنے مفاد عامہ کو لے کر چلیں گے تو پھر یقینی طور پر اس ملک کے تعیلمی نظام کا بیڑا غرق ہوگا اور نقل کی بنیاد پر زوال پزیر تعیلمی درخت/ پیڑ کا پودا پھلے اور پھولے گا۔جب تاکہ حکومت وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام محکمہ تعیلم سرکاری و نیم سرکاری طور تمام نصاب تعیلم کو سنگل سلیبس اور اردو زبان میں نہی کرائے گی ۔اسی طرح ملک بھر میں طلبہ و طالبات بغیر سوچے سمجھے اور بغیر پڑھے لکھے بورڈ کے امتحانات میں نقل کرتے رہینگے جب تک حکومت تعیلم حاصل کرنے کے لئیے طلبہ و طالبات کے لئے سکولز۔کالجز یونیورسٹیز کی فیسوں میں کمی اساتذہ پروفیسرز بورڈ کے عملے کی قابلیت کے بنیاد پر مناسب تنخوائیں نہی بڑھائی جائینگی اور بہترین تعیلمی سٹرکچر رائج نہی کرے گی تب تک تعیلمی سسٹم میں بہتری نہی آسکتی اور سربراہان محکمہ تعلیم بچوں کو تعلیم کی خواندگی حاصل کرنے کے لئیے آسانیاں اور سہولتیں نہی دی گی تب تک اس ملک کا نظام تعیلم تباہی کے دہانے پر خدانخواستہ جوں کا توں ہی چلتا رہے گا۔لہزا حکومت وقت وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر نقل کلچر کا ختمہ اور امتحانات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئیے سرتوڑ کوشش کرے تاکہ قوم کے معماروں کے بہترین مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور تعیلمی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور دنیا عالم میں پاکستان کا وقار تعیلمی نظام کی وجہ سے بلند ھو انشاء اللہ.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں