نجی شعبوں کے درمیان روابط کو فروغ دے کر پاک برطانیہ دو طرفہ تجارت کو 10 بلین پاونڈ تک لے جایا جا سکتا ہے،میاں کاشف اشفاق

Spread the love

نجی شعبوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور روابط کو فروغ دے کر پاک برطانیہ دو طرفہ تجارت کو 10 بلین پاونڈ تک لے جایا جا سکتا ہے
پاکستان یوکے بزنس کونسل کے چیئرمین میاں کاشف اشفاق کی پاک برطانیہ فرینڈشپ کونسل مانچسٹر چیپٹر کے صدر اسفند یار خان سے گفتگو

اسلام آباد / لندن (عارف چودھری)
پاکستان یوکے بزنس کونسل کے چیئرمین میاں کاشف اشفاق نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور روابط کو فروغ دے کر دو طرفہ تجارت کو 3 بلین پاونڈ سے بڑھا کر 10 بلین پاونڈ تک لے جایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات پاک برطانیہ فرینڈشپ کونسل مانچسٹر چیپٹر کے صدر اسفند یار خان سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جنہوں نے جمعرات کو یہاں ان سے ملاقات کی۔ میاں کاشف نے کہا کہ امریکہ اور چین کے بعد مقامی تاجروں کے لیے برطانیہ سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ برطانیہ کے معیارات پر پورا اترنے کے لیے ہمیں اپنی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی مصنوعات کی بہت زیادہ مانگ ہے اور فی الوقت ہم اس سے بہت کم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ٹی سیکٹر کی گزشتہ چند سالوں میں حاصل ہونے والی ریکارڈ رفتار کو برقرار رکھنے اور مزید تیز کرنے اور برطانوی آئی مارکیٹ پر غلبہ کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ پاکستان کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں یورپی ممالک سے 2.282 بلین ڈالر کی خالص براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ چین کی جانب سے 6.309 بلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری ہوئی۔ پاکستان میں کام کرنے والی برطانوی کمپنیوں کیلئے پرکشش پالیسیاں بنا کر اس سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹا ئیل برآمد کنندگان برطانیہ کی کمپنیوں کے ساتھ روابط کے خواہشمند نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کی منڈیوں کے بارے میں بہتر آگاہی اور روابط پیدا کرکے اور مسابقتی قیمت کی سطح پر قابل قبول پراڈکٹ لائنز قائم کی جا سکتی ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی تاجر اسفند یار خان نے کہا کہ پاکستانی برآمد کنندگان کے پاس برطانیہ میں مارکیٹ کرنے کے لیے برانڈ پاور انتہائی کم ہے۔ وہ کم وقعت والی مارکیٹنگ میں مصروف ہیں اور ان کی اکثریت برطانوی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کی زحمت کم ہی گوارا کرتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت میں 600 سے زائد برطانوی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی تعداد صرف 150 ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ ایکسپورٹس کی اوسط سالانہ گروتھ صرف 70 ملین ڈالر ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعات کے بین الاقوامی معیار اور اپنے برانڈز کے فروغ پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرکے پاکستانی برآمد کنندگان برطانوی منڈیوں تک مزید رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک یو کے فرینڈ شپ کونسل پاکستانی برآمد کنندگان کا ہمیشہ خیر مقدم کرتی ہے اور برطانوی کمپنیوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا اہتمام کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں